راجہ کاشف جب گزرے دِنوں کو یاد کرتے ہیں تو وہ بڑی محبت سے اپنے والدین کا ذکر کرتے ہیں، جِن کی کوشش کی وجہ سے برطانیہ میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کے باوجود، وہ اردو اور پنجابی اتنے صاف لب و لہجے کے ساتھ بولتے ہیں کہ بہت سے برِصغیر میں رہنے والے نوجوان نہیں بول سکتے۔
’’اُنھوں نے ایک معمول رکھا تھا کہ میری ڈیوٹی ہوتی تھی اسکول سے پہلے کہ میں اردو کا اخبار لے کر آؤں اور والد صاحب جب شیو کر رہے ہوں تو میں سرخیاں پڑھ کر سناؤں۔۔۔اور میں سمجھتا ہوں کہ شاید میری لا کی ڈگری اتنی کام نہیں آئی جتنی کہ میری اردو اورپنجابی کی تربیت۔ شعر و شاعری کا شوق رہا پھر گائیکی کا ہوگیا۔‘‘
کاشف کے والد راجہ صغیر بھٹی ادبی ذوق بھی رکھتے تھے اور وہ کاشف کو بھی ان نشستون میں لے کر جاتے تھے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ عمر میں بہت بڑے فرق کے باوجود کاشف نے اپنی ایک البم ’ماں‘ اپنے ہم عمر فن کاروں کے بجائے دلیپ کمار، دیوانند، پران، دھرمیندر، ندیم اور معین اختر جیسے بڑے فنکاروں کے ساتھ ریکارڈ کی۔
ایک اور یاد جس میں تھوڑا سا فخر بھی شامل ہے وہ اُن کے اسکول کے زمانے کی ہے جب اُنھوں نے شوکت خانم میموریل اسپتال کے لیے اپنے کرکٹ کے ہیرو عمران خان کی خاطر اسکول کے بچوں سے دو ہزار ایک سو پچاس پونڈ جمع کیے تھے۔
وہ اِس طرح کہ 1992ء میں جب پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا میں نے اُس وقت خبر پڑھی کہ اسکول کے بچوں نے عمران خان کے اسپتال کے لیے پیسے جمع کیے ہیں۔ کاشف نے بھی یہ تجویز اپنے اسکول کے سامنے رکھی اور اُنھیں اجازت مل گئی۔اُنھوں نے پیسے جمع کیے۔
’’ عمران خان صاحب میرے اسکول آئے اور وہیں میں نے اپنی پہلی پرفارمنس بھی کی۔ ’چودھویں کا چاند ہو‘۔۔۔میں نے پہلی بار گایا اسٹیج پر۔خان صاحب کو یہ گانا بہت پسند آیا اور اُنھوں نے مجھے انڈیا اور پاکستان کا ایک میچ دکھایا۔ اِس فنکشن میں برطانیہ کا ایک بڑا ریڈیو اسٹیشن بھی موجود تھا جس نےانٹرویو کے لیے بلایا اور پھر کاشف وہاں باقاعدہ کام کرنے لگے۔
’’میں خان صاحب کی وجہ سے overnight ایک اسٹار بن گیا تھا اسکول میں، کیونکہ وہاں بیٹھ کر میں پرفارمنس بھی کر رہا تھا اور پورا اسکول جان گیا تھا کہ میں نےکیا کچھ کیا ہے‘‘۔
راجہ کاشف نے اپنے والد کا ایک بہت پرانا شعر سنایا جسے اب اُنھوں نے اپنی نئی البم کے
لیے کمپوز کیا ہے:
میرا آشیاں جلا کر مجھ کو مٹا دیا
اِک بے وفا نے آج مجھ کو رُلا دیا
’’میں اِس کا بڑا خیال رکھتا ہوں کہ میں کونسا کلام گا رہا ہوں۔اور اس میں بیلنس رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پرانے زمانے میں لوگ شاعری سنا کرتے تھے اور اس کے ساتھ گائیکی۔ تو شاعری اور لفظ بہت اہم ہیںٕ‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس وقت جس طرح دنیا سمٹ گئی ہے، بہت سے چینلز ہیں، انٹرنیٹ ہے اِس نے تو آج بچوں کے لیے یہ اور بھی آسان کردیا ہے کہ وہ کہیں بھی رہتے ہوں، اپنی زبان اور اپنے کلچر سے رابطہ قائم رکھ سکیں۔
(نوٹ: مکمل انٹرویو کے لیے، ریڈیو پروگرام ’کچھ تو کہیئے‘ کے 18 اگست کے پروگرام میں دیے ہوئے ’لِنک‘ پر’ کلک‘ کیجیئے۔)
’’اُنھوں نے ایک معمول رکھا تھا کہ میری ڈیوٹی ہوتی تھی اسکول سے پہلے کہ میں اردو کا اخبار لے کر آؤں اور والد صاحب جب شیو کر رہے ہوں تو میں سرخیاں پڑھ کر سناؤں۔۔۔اور میں سمجھتا ہوں کہ شاید میری لا کی ڈگری اتنی کام نہیں آئی جتنی کہ میری اردو اورپنجابی کی تربیت۔ شعر و شاعری کا شوق رہا پھر گائیکی کا ہوگیا۔‘‘
کاشف کے والد راجہ صغیر بھٹی ادبی ذوق بھی رکھتے تھے اور وہ کاشف کو بھی ان نشستون میں لے کر جاتے تھے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ عمر میں بہت بڑے فرق کے باوجود کاشف نے اپنی ایک البم ’ماں‘ اپنے ہم عمر فن کاروں کے بجائے دلیپ کمار، دیوانند، پران، دھرمیندر، ندیم اور معین اختر جیسے بڑے فنکاروں کے ساتھ ریکارڈ کی۔
ایک اور یاد جس میں تھوڑا سا فخر بھی شامل ہے وہ اُن کے اسکول کے زمانے کی ہے جب اُنھوں نے شوکت خانم میموریل اسپتال کے لیے اپنے کرکٹ کے ہیرو عمران خان کی خاطر اسکول کے بچوں سے دو ہزار ایک سو پچاس پونڈ جمع کیے تھے۔
وہ اِس طرح کہ 1992ء میں جب پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا میں نے اُس وقت خبر پڑھی کہ اسکول کے بچوں نے عمران خان کے اسپتال کے لیے پیسے جمع کیے ہیں۔ کاشف نے بھی یہ تجویز اپنے اسکول کے سامنے رکھی اور اُنھیں اجازت مل گئی۔اُنھوں نے پیسے جمع کیے۔
’’ عمران خان صاحب میرے اسکول آئے اور وہیں میں نے اپنی پہلی پرفارمنس بھی کی۔ ’چودھویں کا چاند ہو‘۔۔۔میں نے پہلی بار گایا اسٹیج پر۔خان صاحب کو یہ گانا بہت پسند آیا اور اُنھوں نے مجھے انڈیا اور پاکستان کا ایک میچ دکھایا۔ اِس فنکشن میں برطانیہ کا ایک بڑا ریڈیو اسٹیشن بھی موجود تھا جس نےانٹرویو کے لیے بلایا اور پھر کاشف وہاں باقاعدہ کام کرنے لگے۔
’’میں خان صاحب کی وجہ سے overnight ایک اسٹار بن گیا تھا اسکول میں، کیونکہ وہاں بیٹھ کر میں پرفارمنس بھی کر رہا تھا اور پورا اسکول جان گیا تھا کہ میں نےکیا کچھ کیا ہے‘‘۔
راجہ کاشف نے اپنے والد کا ایک بہت پرانا شعر سنایا جسے اب اُنھوں نے اپنی نئی البم کے
لیے کمپوز کیا ہے:
میرا آشیاں جلا کر مجھ کو مٹا دیا
اِک بے وفا نے آج مجھ کو رُلا دیا
’’میں اِس کا بڑا خیال رکھتا ہوں کہ میں کونسا کلام گا رہا ہوں۔اور اس میں بیلنس رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پرانے زمانے میں لوگ شاعری سنا کرتے تھے اور اس کے ساتھ گائیکی۔ تو شاعری اور لفظ بہت اہم ہیںٕ‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس وقت جس طرح دنیا سمٹ گئی ہے، بہت سے چینلز ہیں، انٹرنیٹ ہے اِس نے تو آج بچوں کے لیے یہ اور بھی آسان کردیا ہے کہ وہ کہیں بھی رہتے ہوں، اپنی زبان اور اپنے کلچر سے رابطہ قائم رکھ سکیں۔
(نوٹ: مکمل انٹرویو کے لیے، ریڈیو پروگرام ’کچھ تو کہیئے‘ کے 18 اگست کے پروگرام میں دیے ہوئے ’لِنک‘ پر’ کلک‘ کیجیئے۔)