شامی صدر بشار الاسد نےدمشق کی ایک مسجد میں نمازِ عید ادا کی۔ جولائی کے بعدجب ایک بم حملے میں اُن کے چار اعلیٰ سکیورٹی سربراہان ہلاک ہوئے، وہ پہلی بار کسی پبلک مقام پر نظر آئے۔
شام کے سرکاری میڈیا نے مسٹر اسد کو مسکراتے ہوئے دکھایا۔ وہ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس تھے اور اتوار کو دارالحکومت کی ’الحماد مسجد‘ میں سرکاری حکام کےہمراہ پلتھی مارے بیٹھے ہوئے تھے۔
امام نے اپنے خطبے میں کہا کہ شام امریکی، مغربی اور سنی عرب سازش کا شکار ہوا ہے ۔ عید الفطر ماہ ِصیام کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔
مسٹر اسد کا تعلق اقلیتی علوی سلسلے سے ہے۔ وہ 18جولائی کے بعد سے پبلک میں نظر نہیں آئے ، جب باغیوں نے دمشق کی سکیورٹی عمارت پر بم حملہ کیا، جِس میں چار سینئر سکیورٹی عہدے دار ہلاک ہوئے۔
تاہم، وہ ٹیلی ویژن کی مختصر تصاویری جھلکیوں میں سرکاری کام کاج نمٹاتے نظر آتے رہے ہیں۔
آمرانہ انداز کے مالک شامی صدر کو 17ماہ سےجاری بغاوت کا سامنا ہے، جس کی قیادت اکثریتی سنی آبادی کر رہی ہے، جسے خطے کےاکثریتی سنی مسلک کے ماننے والے ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
شامی نائب صدر فاروق الشرع مسجد میں مسٹر اسد کے ہمراہ دیکھنے میں نہیں آئے۔
باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ الشرع نے، جو ایک سنی ہیں، حال ہی میں منحر ف ہو چکے ہیں، جِس بات کی حکومت تردید کرتی ہے۔
شام کے سرگر م کارکنوں نے کہا ہے کہ اتوار کو نمازِ عید کے بعد ہزاروں لوگوں نے دمشق اور ملک کے دیگر حصوں میں اسد مخالف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔
سرگرم کارکنوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شامی حکومت نے باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر مزید بمباری کی ہے۔ لندن میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے ہفتے کو بتایا کہ لڑائی میں کم از کم 137 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاکتوں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو پائی۔
شام کے سرکاری میڈیا نے مسٹر اسد کو مسکراتے ہوئے دکھایا۔ وہ سوٹ اور ٹائی میں ملبوس تھے اور اتوار کو دارالحکومت کی ’الحماد مسجد‘ میں سرکاری حکام کےہمراہ پلتھی مارے بیٹھے ہوئے تھے۔
امام نے اپنے خطبے میں کہا کہ شام امریکی، مغربی اور سنی عرب سازش کا شکار ہوا ہے ۔ عید الفطر ماہ ِصیام کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔
مسٹر اسد کا تعلق اقلیتی علوی سلسلے سے ہے۔ وہ 18جولائی کے بعد سے پبلک میں نظر نہیں آئے ، جب باغیوں نے دمشق کی سکیورٹی عمارت پر بم حملہ کیا، جِس میں چار سینئر سکیورٹی عہدے دار ہلاک ہوئے۔
تاہم، وہ ٹیلی ویژن کی مختصر تصاویری جھلکیوں میں سرکاری کام کاج نمٹاتے نظر آتے رہے ہیں۔
آمرانہ انداز کے مالک شامی صدر کو 17ماہ سےجاری بغاوت کا سامنا ہے، جس کی قیادت اکثریتی سنی آبادی کر رہی ہے، جسے خطے کےاکثریتی سنی مسلک کے ماننے والے ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
شامی نائب صدر فاروق الشرع مسجد میں مسٹر اسد کے ہمراہ دیکھنے میں نہیں آئے۔
باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ الشرع نے، جو ایک سنی ہیں، حال ہی میں منحر ف ہو چکے ہیں، جِس بات کی حکومت تردید کرتی ہے۔
شام کے سرگر م کارکنوں نے کہا ہے کہ اتوار کو نمازِ عید کے بعد ہزاروں لوگوں نے دمشق اور ملک کے دیگر حصوں میں اسد مخالف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔
سرگرم کارکنوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شامی حکومت نے باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر مزید بمباری کی ہے۔ لندن میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے ہفتے کو بتایا کہ لڑائی میں کم از کم 137 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاکتوں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو پائی۔