احمد فراز تنہائیوں کے شاعر تھے۔ وہ شعری مجموعے بھی عطا کرتے ہیں تو ’تنہا تنہا‘ اور’ درد آشوب ‘؛ اور پھر گلوں میں رنگ بھرد یے، ایسے کہ، اب کےہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔
اُن کے شعر پڑھنے کا انداز ہی اتنا جاذب و پُر اثر تھا کہ سہ آتشے کا کام کرتے تھے، کیونکہ اُن کے مجاز و عزم میں کوہِ ہمالیہ کی گرج برس شامل تھی۔
گنگنانے سے پہلےنوجوان اُن کے مجموعے پڑھ کرگھر سےباہر آتے تھے کہ اِس ادا سے متعلق فراز کیا فرماتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے شاعر تھے۔ شاعری کی نشست میں اُن کو سن لینا، اجنبیت سےچھٹکارے کا ایک مجرب علاج تھا۔
پھر، فلموں میں اُن کے گانے کیا شامل ہوئے کہ عمر رسیدہ بھی اُن کےگرویدہ ہوگئے۔
تفصیل کے لیے اُن کی چوتھی برسی کےموقع پر یہ خصوصی آڈیو رپورٹ سنیئے۔
کلک کیجیئے:
اُن کے شعر پڑھنے کا انداز ہی اتنا جاذب و پُر اثر تھا کہ سہ آتشے کا کام کرتے تھے، کیونکہ اُن کے مجاز و عزم میں کوہِ ہمالیہ کی گرج برس شامل تھی۔
گنگنانے سے پہلےنوجوان اُن کے مجموعے پڑھ کرگھر سےباہر آتے تھے کہ اِس ادا سے متعلق فراز کیا فرماتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے شاعر تھے۔ شاعری کی نشست میں اُن کو سن لینا، اجنبیت سےچھٹکارے کا ایک مجرب علاج تھا۔
پھر، فلموں میں اُن کے گانے کیا شامل ہوئے کہ عمر رسیدہ بھی اُن کےگرویدہ ہوگئے۔
تفصیل کے لیے اُن کی چوتھی برسی کےموقع پر یہ خصوصی آڈیو رپورٹ سنیئے۔
کلک کیجیئے: