مہدی حسن ، پاکستان میں گائیکی کے شہنشاہ ہیں۔ یہ میدان برسوں سے ان کے نام ہے اور آئندہ کئی عشروں تک بھی شاید ان کا کوئی جواب پیدا نہ ہوسکے۔ پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ تمام افراد مہدی حسن کو جو مرتبہ عطاکرتے ہیں وہ ناصرف نہایت اعلیٰ ہے بلکہ انہیں مہدی حسن سے والہانہ محبت ہے ۔ محبت اور اپنائیت ہی کا نتیجہ ہے کہ سب لوگ انہیں ”خان صاحب“ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
سینیئر صحافی محمد شاہد خان المعروف م ،ش، خ ان شخصیات میں شامل ہیں جن کا مہدی حسن کے ساتھ عروج کے دور میں بھی قریبی تعلق رہا۔انہوں نے مہدی حسن سے ایک دو نہیں ،کئی انٹرویوز کئے ، ان کے ساتھ سیمینارز میں شرکت کی، ایک ساتھ سفر بھی کیا ۔ زیر نظر تحریر مہدی حسن سے جڑی ان کی ماضی کی یادوں پر مشتمل ہے ۔ وہ مہدی حسن کے بارے میں کہتے ہیں ۔ ”مہدی حسن ابھی جس حال میں ہیں یقین نہیں آتا کہ یہ وہی مہدی حسن ہیں جو اپنی صحت کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور اکثر لاہور میں بھولو کے اکھاڑے میں ورزش کیا کرتے تھے“
شاہد خان کے مطابق مہدی حسن نے جس گیت کو بھی اپنی آواز دی وہ گیت امر ہوگیا۔ مثلاً ابتدائی دنوں کی بات ہے ہدایات کار خلیل قیوم اپنی فلم”فرنگی “ بنارہے تھے۔ انہوں نے فیض احمد فیض سے اپنی فلم کے لئے ایک گیت لکھوایاجس کے بول تھے”گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے“۔ اس گیت کی ریکاردنگ کے لئے مہدی حسن کی خدمات لی گئیں۔ مہدی حسن نے اس گیت کو اس قدر خوبصورت انداز میں گایا کہ اس کی خوبصورتی آج تک ترو تازہ معلوم ہوتی ہے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ فلم کی ریلیز سے پہلے یہ گانا ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو کراچی سے لے کر خیبر تک لوگوں نے دل تھام لئے تھے۔ اس ایک گیت نے مہدی حسن کو گلی گلی مشہورکردیا تھا۔“
” فرنگی“ 18 دسمبر 1964ء کو ریلیز ہوئی تھی ۔ اسی دور میں مہدی حسن کی بے مثال آواز میں گایا ہوا ایک اور گانا ریکارڈ توڑ کامیابی سے سرفرازہوا۔ فلم”سسرال“کے اس گیت کے بول تھے ”جس نے میرے دل کو درد دیا“۔بقول م ش خ ،اس گیت نے عوامی مقبولیت کا وہ ریکارڈ قائم کیا کہ ریڈیو پاکستان کے غالباً ہر پروگرام میں یہ گیت بجاکرتا تھا۔ ان گیتوں نے گویا وہی کام کیا جو خوش بختی کے پرندے ہما سے منسوب ہے۔ کہتے ہیں ہما جس کے سرپر بیٹھے وہ بادشاہ بن جاتا ہے ۔ مذکورہ دونوں گیتوں نے دیکھتے ہی دیکھتے مہدی حسن کو قسمت کا دھنی بنادیا۔ ان گیتوں کے بعد مہدی حسن کے لئے کامیابی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
”بنیادی طور پر خان صاحب شریف النفس انسان ہیں، ہمیشہ جونیئر آرٹسٹوں سے محبت کی ۔ان کے حوالے سے یہ بات بھی نہایت مشہور تھی کہ جس نو فنکار پر ان کی آواز ڈب ہوتی ہے وہ راتوں رات کامیاب فنکاروں کی فہرست میں آکھڑا ہوتا تھا۔ پروڈیوسر مصنف اور موسیقار خورشید انور نے ذاتی فلم کا آغافلم ”گھونگھٹ“ سے کیاتھا۔ اس کے ہیرو سنتوش کمار تھے۔ خورشید انور کی موسیقی میں جب مہدی حسن نے جو ”مجھ کو آواز دے کہاں ہے“ گایا تو لوگ سنتوش کمار کے دیوانے ہوگئے اور سنتوش اس فلم سے اتنے مشہور ہوئے کہ راتوں رات انہیں صف اول کا ہیروز شمار کیا جانے لگا۔
ماضی کے مشہور ہیرو شاہد بھی ایسے ہی فنکار ہیں جو مہدی حسن کے گیتوں سے ہیرو بنے۔ شاہد کی پہلی فلم ”آنسو“ تھی جس کا ایک گیت ”جان جاں تو جو کہے گاوٴں میں گیت تیرے“اس قدر مشہور و معروف ہوا کہ پاکستان تو پاکستان بھارت تک اس کی دھوم مچ گئی۔ اس گیت نے اداکار شاہد کو پہلی فلم سے ہی صف اول کے ہیروز میں لا کھڑا کیا۔
ایک اور گیت ”یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم ۔۔۔کہانی محبت کی زندہ رہے گی“ بھی مہدی حسن کو گائیکی کی دنیا کا شہنشاہ بنا گیا ۔ فلمساز شباب کیرانوی نے اس گانے کو اپنی فلم ”میرا نام ہے محبت“کے لئے ریکارڈ کرایا تھا۔ اداکار غلام محی الدین کی یہ ابتدائی فلموں میں سے تھی۔اس گانے کی شہرت سے نہ صرف فلم ہٹ ہوئی بلکہ غلام محی الدین کو بھی اس گیت نے اسٹار بنادیا ۔
مہدی حسن یعنی ’خان صاحب‘ کے کہنے پرنغمہ نگار خواجہ پرویز نے فلم ”چاہت “ کے لئے ایک گیت لکھا تھاجس کے بول تھے”پیار بھرے ، دو شرمیلے نین“۔ اس گیت کا سب سے بڑا کریڈیٹ یہ تھا کہ فلم نے محض گانے کی بنا پر سلور جوبلی کی۔اس فلم کے موسیقار تھے روبن گھوش۔
موسیقار نثار بزمی ،اداکار رنگیلا اورشاعر مشیر کاظمی کی خان صاحب سے بہت گہری دوستی تھی۔ایک مرتبہ مشیر کاظمی مرحوم نے اپنے تمام دوستوں کو یکجا کیا اور بحیثیت شاعر ، فلم ساز اور ہدایت کار فلم ”میری زندگی ہے نغمہ“بنانے کا اعلان کیا۔
یہ کامیڈی ہیروز کا دور تھااور رنگیلا ان ہیروز میں سرفہرست تھے چنانچے رنگیلا کو ہی ”میری زندگی ہے نغمہ“ کے لئے کاسٹ کیا گیا ۔ اس فلم کے گیت لکھے مشیرکاظمی نے جبکہ موسیقار نثار بزمی اور پلے بیک سنگینگ مہدی حسن کی تھی۔ اس فلم کے ایک گیت” اک حسن کی دیوی سے تجھے پیار ہوا تھا“ اتنا مشہور ہوا کہ اس دور کے سامعین میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ خان صاحب کو داد دیئے بغیر اس گیت کو سننا ’گیت کی توہین‘ ہے ۔ اس گیت کی وجہ سے رنگیلا مکمل ہیرو کی صف میں آکھڑے ہوئے۔ آج بھی یہ مہدی حسن کے سب سے زیادہ مشہور گانوں میں سرفہرست شمار ہوتا ہے۔
فلم”داستان“اگرچہ بری طرح فلاپ ہوئی لیکن اس کا ایک گانا ”قصہ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے“۔۔ خان صاحب کی کاوشوں کا نچوڑقرار دیا گیا۔ اسی طرح فلمساز اور اداکار درپن کی فلم”عظمت“کی شوٹنگ کے دوران درپن اور نیر سلطانہ نے مہدی حسن سے ایسٹرن اسٹوڈیو میں کہا تھا کہ خان صاحب ایسا گیت گائیں جو میری اور درپن کی زندگی کا یادگار گیت بن جائے سو ایسا ہی ہوا۔
اسی گیت کے حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب اس گیت کی دھوم بھارت پہنچی تو لتا منگیشکر نے خان صاحب کو وہ بات کہی جو مہدی حسن اور لتا کے حوالے سے اکثر سنی جاتی ہے ۔ یہ گیت سن کر لتا جی نے کہا تھا کہ ” مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں“ یہ اس دور کا سپر، ڈوپر ہٹ گیت تھا۔ ا س کے بول تھے ”زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں “
شباب کیرانوی مرحوم نے جب فلم ”نیا راستہ“ بنانے کا اعلان کیا تو ایک گیت کے لئے خان صاحب کو بلوابھیجا۔ خان صاحب نے شاعری سننے کے بعد شباب کیرالوی سے کہا کہ آپ یہ گیت احمد رشدی صاحب کی آواز میں ریکارڈ کرالیں، وہ طربیہ گیت گانے کے ماہر ہیں۔ یہ خان صاحب کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے اپنے سامنے احمد رشدی کا نام پیش کیا۔
ادھر کیرالوی صاحب بھی بضد تھے کہ خان صاحب سے ہی یہ گیت گوائیں گے ۔ ان کااصرار اتنا بڑھا کہ خان صاحب کو ہار ماننا پڑا۔انہوں نے گیت گایا جو محمد علی پر فلمبند ہوا ۔ گو کہ فلم ہٹ نہیں ہوئی مگر صرف خان صاحب کے گیت کی بدولت شباب صاحب ایک بڑے مالی خسارے سے بچ گئے ۔ گیت کے بول تھے”مجھے کر دے نا دیوانہ تیرے انداز مستانہ “۔