کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاوٴن کی فیکٹری میں لگنے والی آگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 289ہوگئی ہے۔ کراچی کی تاریخ نے آتشزدگی سے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کبھی نہیں دیکھی۔ آتشزدگی کا واقعہ گزشتہ روز پیش آیا تھا ۔ آگ اس قدر شدید تھی کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اس پر بدھ کی دوپہر کو قابو پایا گیا۔
گیارہ ستمبر کی تاریخ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ کراچی کے لئے بھی اب اچھے انداز میں یاد نہیں رکھی جائے گی۔ عجب اتفاق ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کو بھی منگل ہی تھا۔ مقامی وقت کے مطابق شام کے پونے سات بج رہے تھے کہ وہ واقعہ پیش آگیا جو شہر قائد کی تاریخ میں رواں سال کا سب سے بڑا آتشزدگی کا واقعہ ہے۔
واقعے میں بچ جانے والے فیکٹری ملازمین کے مطابق فیکٹر ی کی عمارت تین منزلوں پر مشتمل تھی جس کے مختلف حصوں میں گارمنٹس سے متعلق مختلف کام ہوتے تھے۔ فیکٹری میں مرد خواتین اور کچھ بچے بھی کام کرتے تھے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کی غرض سے فیکٹری کے مین دروازے پر تالے لگائے جاتے تھے اور حادثے کے وقت بھی وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ فیکٹری سے نکلنے کے دوراستے تھے اور ان دنوں پر تالے پڑے رہتے تھے۔
ملازمین کے مطابق فیکٹری میں خواتین مشین آپریٹراوربچے ہیلپرکے طورپرکام کرتے تھے ۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں پہلے بھی تین مرتبہ آگ لگ چکی ہے۔ ڈی سی ویسٹ گنورلغاری کے مطابق فیکٹری کا نام بیلابرادرن علی انٹرپرائززہے۔
عینی شاہدین اور ریسکیو ورکرز کا کہنا ہے کہ تالے لگے ہونے کے سبب بیشتر ملازمین فیکٹری میں پھنس گئے۔ کچھ نے عمارت کی مختلف منزلوں سے جان بچانے کی غرض سے چھلانگیں لادیں جس کے سبب بھی اموات زیادہ ہوئیں۔
حادثے میں بچ جانے والے ایک سْپر وائزر راشد نے انکشاف کیا ہے کہ آتشزدگی کے وقت کئی سو ملازمین فیکٹری میں موجود تھے۔ان کا کہنا ہے کہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ملازمین کی چھٹی میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ اچانک زور دار دھماکے ہوئے اور اندھیرا چھا گیا۔ اس کے بعد ہر طرف ہولناک آگ پھیل گئی۔راشد کا کہنا ہے کہ بچ جانے والے افراد نے کھڑکیوں سے چھلانگین لگا کر اپنی جان بچائی۔
امدادی کام کرنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے تیسری منزل کی کھڑکیوں کو توڑ کر وہاں سے لاشیں نکالیں جبکہ بیسمنٹ سے بھی کافی تعداد میں لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
واقعے کے زخمیوں اور جاں بحق افراد کی لاشوں کو عباسی شہید اسپتال، جناح اسپتال اور سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ کچھ لاشوں کو ایدھی کے سرد خانے میں بھی رکھا گیا۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی محمد حسین سید کا کہنا ہے کہ فیکٹری کی عمارت آتشزدگی کے باعث انتہائی مخدوش ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اس کے منہدم ہونے کا خطرہ ہے۔
بدھ کی شام گئے تک ریسکیو آپریشن جاری رہا حالانکہ کہ اس دوران میں شام کے اوقات میں شہر میں تیز بارش بھی ہوئی جبکہ صبح اور دوپہر کے اوقات میں بھی وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی لیکن اس کے باوجود رضاکار امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق فیکٹری مالکان فیکٹری مالکان شاہدبیلا اورارشد بیلا منگل کی رات تک جائے حادثہ پر موجود رہے اور امدادی کاموں میں بھی پیش پیش تھے تاہم اس کے فوری بعد سے ان کا کچھ پتہ چل رہا ۔ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ہولناک واقعے کا مقدمہ بدھ کی شام سرکار کی مدعیت میں سائٹ تھانے میں درج کرایا گیا۔حکام کی جانب سے ایف آئی سے دونوں کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ترجمان کے مطابق کے ای ایس سی نے واقعہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے بجلی کے واجبات اور آئندہ چھ ماہ کے بل معاف کردیئے ہیں۔
ایم کیو ایم کی جانب سے سانحہ پر تین روزہ سوگ کااعلان کیاگیاہے۔ اس بات کا فیصلہ بدھ کو متحدہ قومی موومنٹ کے رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تین روز تک تمام سیاسی سرگرمیاں معطل رہیں گی۔بازووٴں پرسیاہ پٹیاں باندھی جائیں گی۔ پارٹی دفاترپرسیاہ پرچم لہرائے جائیں گے۔سانحہ میں مرنے والے کراچی سمیت پنجاب، خیبرپختونخوا ، بلوچستان اوراندرون سندھ کے محنت کشوں کی میتیں ان کے آبائی شہروں میں پہنچانے کے انتظامات ایم کیوایم کا فلاحی ادارہ خدمت خلق فاوٴنڈیشن انجام دے گا۔
حکومتی اقدامات
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مجرمانہ غفلت برتنے کے الزام میں فیکٹری مالکان کا نام ایگزسٹ کنڑول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم بھی جاری کیا۔ان کی جانب سے آج یوم سوگ کا بھی اعلان ہوا۔
سندھ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکریٹری محنت، آئی جی سندھ ، ڈی جی رینجرز ، ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ سے دس دن میں تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ادھر فیکٹری میں آتشزدگی کی عدالتی تحقیقات کرانے کیلئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے جسٹس ریٹائرڈ قربان علوی کو انکوائری افسر مقرر کردیا ہے۔ انکوائری کمیشن سات روز میں وزیراعلیٰ کو رپورٹ پیش کرے گا۔
صوبائی وزیر صنعت و تجارت روٴف صدیقی نے لواحقین کو پانچ لاکھ اورزخمیوں کو دو لاکھ روپے مالی امداد دینے کا اعلان کیاہے۔ انہوں نے سائٹ ایسوسی ایشن کی مدعیت میں فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی ہدایات جاری کیں۔روٴف صدیقی کا کہنا ہے حفاظتی اقدامات نہ ہوئے توفیکٹری کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے سانحہ بلدیہ ٹاوٴن پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حفاظتی انتظامات نہ کرنے والی فیکٹریاں سیل کردی جائیں گی۔ وہ جائے حادثہ پرمیڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اہم شخصیات کا دورہ
بدھ کی صبح سے شام تک متعدد سرکاری اور اہم سیاسی شخصیات نے جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر انیس احمد قائم خانی،صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد،سابق ناظم اعلیٰ کراچی سید مصطفی کمال ، ایم کیوایم کے رہنما عامر خان ،حق پرست صوبائی وزیرعبدالحسیب،رکن سندھ اسمبلی حنیف شیخ ،سماجی کارکن عبدالستار ایدھی، ڈی سی او کراچی محمد حسین سید،کمشنر کراچی روشن علی شیخ اورسول اسپتال کے ایم ایل او آفتاب چنڑ سرفہرست ہیں۔
گیارہ ستمبر کی تاریخ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ کراچی کے لئے بھی اب اچھے انداز میں یاد نہیں رکھی جائے گی۔ عجب اتفاق ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کو بھی منگل ہی تھا۔ مقامی وقت کے مطابق شام کے پونے سات بج رہے تھے کہ وہ واقعہ پیش آگیا جو شہر قائد کی تاریخ میں رواں سال کا سب سے بڑا آتشزدگی کا واقعہ ہے۔
واقعے میں بچ جانے والے فیکٹری ملازمین کے مطابق فیکٹر ی کی عمارت تین منزلوں پر مشتمل تھی جس کے مختلف حصوں میں گارمنٹس سے متعلق مختلف کام ہوتے تھے۔ فیکٹری میں مرد خواتین اور کچھ بچے بھی کام کرتے تھے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کی غرض سے فیکٹری کے مین دروازے پر تالے لگائے جاتے تھے اور حادثے کے وقت بھی وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ فیکٹری سے نکلنے کے دوراستے تھے اور ان دنوں پر تالے پڑے رہتے تھے۔
ملازمین کے مطابق فیکٹری میں خواتین مشین آپریٹراوربچے ہیلپرکے طورپرکام کرتے تھے ۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں پہلے بھی تین مرتبہ آگ لگ چکی ہے۔ ڈی سی ویسٹ گنورلغاری کے مطابق فیکٹری کا نام بیلابرادرن علی انٹرپرائززہے۔
عینی شاہدین اور ریسکیو ورکرز کا کہنا ہے کہ تالے لگے ہونے کے سبب بیشتر ملازمین فیکٹری میں پھنس گئے۔ کچھ نے عمارت کی مختلف منزلوں سے جان بچانے کی غرض سے چھلانگیں لادیں جس کے سبب بھی اموات زیادہ ہوئیں۔
حادثے میں بچ جانے والے ایک سْپر وائزر راشد نے انکشاف کیا ہے کہ آتشزدگی کے وقت کئی سو ملازمین فیکٹری میں موجود تھے۔ان کا کہنا ہے کہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ملازمین کی چھٹی میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ اچانک زور دار دھماکے ہوئے اور اندھیرا چھا گیا۔ اس کے بعد ہر طرف ہولناک آگ پھیل گئی۔راشد کا کہنا ہے کہ بچ جانے والے افراد نے کھڑکیوں سے چھلانگین لگا کر اپنی جان بچائی۔
امدادی کام کرنے والے رضاکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے تیسری منزل کی کھڑکیوں کو توڑ کر وہاں سے لاشیں نکالیں جبکہ بیسمنٹ سے بھی کافی تعداد میں لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
واقعے کے زخمیوں اور جاں بحق افراد کی لاشوں کو عباسی شہید اسپتال، جناح اسپتال اور سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ کچھ لاشوں کو ایدھی کے سرد خانے میں بھی رکھا گیا۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی محمد حسین سید کا کہنا ہے کہ فیکٹری کی عمارت آتشزدگی کے باعث انتہائی مخدوش ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اس کے منہدم ہونے کا خطرہ ہے۔
بدھ کی شام گئے تک ریسکیو آپریشن جاری رہا حالانکہ کہ اس دوران میں شام کے اوقات میں شہر میں تیز بارش بھی ہوئی جبکہ صبح اور دوپہر کے اوقات میں بھی وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی لیکن اس کے باوجود رضاکار امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق فیکٹری مالکان فیکٹری مالکان شاہدبیلا اورارشد بیلا منگل کی رات تک جائے حادثہ پر موجود رہے اور امدادی کاموں میں بھی پیش پیش تھے تاہم اس کے فوری بعد سے ان کا کچھ پتہ چل رہا ۔ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ہولناک واقعے کا مقدمہ بدھ کی شام سرکار کی مدعیت میں سائٹ تھانے میں درج کرایا گیا۔حکام کی جانب سے ایف آئی سے دونوں کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ترجمان کے مطابق کے ای ایس سی نے واقعہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے بجلی کے واجبات اور آئندہ چھ ماہ کے بل معاف کردیئے ہیں۔
ایم کیو ایم کی جانب سے سانحہ پر تین روزہ سوگ کااعلان کیاگیاہے۔ اس بات کا فیصلہ بدھ کو متحدہ قومی موومنٹ کے رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تین روز تک تمام سیاسی سرگرمیاں معطل رہیں گی۔بازووٴں پرسیاہ پٹیاں باندھی جائیں گی۔ پارٹی دفاترپرسیاہ پرچم لہرائے جائیں گے۔سانحہ میں مرنے والے کراچی سمیت پنجاب، خیبرپختونخوا ، بلوچستان اوراندرون سندھ کے محنت کشوں کی میتیں ان کے آبائی شہروں میں پہنچانے کے انتظامات ایم کیوایم کا فلاحی ادارہ خدمت خلق فاوٴنڈیشن انجام دے گا۔
حکومتی اقدامات
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مجرمانہ غفلت برتنے کے الزام میں فیکٹری مالکان کا نام ایگزسٹ کنڑول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم بھی جاری کیا۔ان کی جانب سے آج یوم سوگ کا بھی اعلان ہوا۔
سندھ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکریٹری محنت، آئی جی سندھ ، ڈی جی رینجرز ، ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ سے دس دن میں تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ادھر فیکٹری میں آتشزدگی کی عدالتی تحقیقات کرانے کیلئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے جسٹس ریٹائرڈ قربان علوی کو انکوائری افسر مقرر کردیا ہے۔ انکوائری کمیشن سات روز میں وزیراعلیٰ کو رپورٹ پیش کرے گا۔
صوبائی وزیر صنعت و تجارت روٴف صدیقی نے لواحقین کو پانچ لاکھ اورزخمیوں کو دو لاکھ روپے مالی امداد دینے کا اعلان کیاہے۔ انہوں نے سائٹ ایسوسی ایشن کی مدعیت میں فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی ہدایات جاری کیں۔روٴف صدیقی کا کہنا ہے حفاظتی اقدامات نہ ہوئے توفیکٹری کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے سانحہ بلدیہ ٹاوٴن پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حفاظتی انتظامات نہ کرنے والی فیکٹریاں سیل کردی جائیں گی۔ وہ جائے حادثہ پرمیڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اہم شخصیات کا دورہ
بدھ کی صبح سے شام تک متعدد سرکاری اور اہم سیاسی شخصیات نے جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر انیس احمد قائم خانی،صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد،سابق ناظم اعلیٰ کراچی سید مصطفی کمال ، ایم کیوایم کے رہنما عامر خان ،حق پرست صوبائی وزیرعبدالحسیب،رکن سندھ اسمبلی حنیف شیخ ،سماجی کارکن عبدالستار ایدھی، ڈی سی او کراچی محمد حسین سید،کمشنر کراچی روشن علی شیخ اورسول اسپتال کے ایم ایل او آفتاب چنڑ سرفہرست ہیں۔