اسلام آباد، کراچی —
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی کی ایک فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی کے واقعہ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بدھ کی شام تک حکام نے ہلاکتوں کی تعداد 289 سے تجاوز کر گئی ہے۔
بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں منگل کی شام گارمنٹس کی فیکٹری میں مرد و خواتین مزدور کام میں مصروف تھے جب وہاں اچانک آگ بھڑک اُٹھی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ بعض افراد نےجان بچانےکے لیے تین منزلہ عمارت کی کھڑکیوں سے چھلانگیں لگا دیں مگر ان میں سے اکثر شدید زخمی ہو گئے یا پھر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
زخمیوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ آگ اس قدر تیزی سے پھیلی کے اندر موجود افراد کے لیے دروازے تک رسائی ناممکن ہوگئی۔
اسپتال ذرائع اور حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ تمام رات آگ کی لپیٹ میں رہنے والی فیکٹری کی عمارت کسی وقت بھی منہدم ہو سکتی ہے۔
جائے وقوعہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکمران اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما فاروق ستار نے کہا کہ واقعے کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے گی۔’’ لواحقین کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا ۔۔۔ جس کی کوتاہی سے بھی یہ ہوا اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں گی۔‘‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ آگ لگنے کی خبر سنتے ہی ڈیوٹی پر موجود محافظوں نے چوری کے خدشے کے پیش نظر فیکٹری کے چار میں سے تین دروازے بند کردیے جس کے باعث ملازمین عمارت کے اندر محصور ہو کر رہ گئے۔
حادثے کے وقت فیکٹری میں موجود ایک مزدور منور ورایو نے عمارت کے اندر کا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر طرف آگ کے شعلے تھے اور لوگ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔
’’میں ایک گھنٹے تک ادھر اُدھر بھاگتا رہا تاکہ فیکڑی سے باہر نکل سکوں لیکن کوئی مدد کرنے نہیں آیا۔ تمام دروازے بند تھے جب کہ میرے سامنے پانچ بھائی چلا چلا کر فریاد کرتے رہے کہ بھیا ہمیں بچا لو لیکن میں کچھ نہیں کر سکا۔‘‘
پولیس کی ٹیمیں فیکٹری مالکان کی گرفتاری کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں میں چھاپے ماررہی ہیں۔
وفاقی وزارت داخلہ نے اُن افراد کی فہرست میں فیکٹری کے مالکان کے نام شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے جو ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مزدوروں کی عالمی تنظیم آئی ایل کے پاکستان میں ڈائریکٹر فرانچسکو ڈی او ویڈیو نے پاکستان میں فیکٹریوں میں آتشزدگی کے ایسے مہلک واقعات پر قابو پانے کی سرکاری کوششوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
’’پاکستان میں لاتعداد ایسی فیکٹریاں ہیں جو غیر قانونی طور پر یا بغیر رجسٹریشن کے کام کررہی ہیں اس لیے ان پر قوانین کا اطلاق بہت مشکل ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ایسی فیکٹریوں کی بندش سے مسائل حل نہیں ہوں گا بلکہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ سنجیدگی سے سماجی شراکت داری کے ذریعے ان مقامات پر مزدوروں کے لیے ماحول کو محفوظ بنانے پر توجہ دے۔
اس سے قبل منگل کی شام لاہور میں جُوتوں کی ایک فیکٹری میں بھی حادثاتی طور پر لگنے والی آگ میں کم ازکم 25 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
آتشزدگی کے دونوں واقعات کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکام نے تحقیقات کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
ان حادثات کے بعد ناقدین ایک بار پھر پاکستان میں فیکٹریوں میں مزدوروں کے تحفظ کے لیے ناکافی اقدامات پر مالکان اور متعلقہ حکام کو ذمہ دار ٹھرا رہے ہیں۔
بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں منگل کی شام گارمنٹس کی فیکٹری میں مرد و خواتین مزدور کام میں مصروف تھے جب وہاں اچانک آگ بھڑک اُٹھی۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ بعض افراد نےجان بچانےکے لیے تین منزلہ عمارت کی کھڑکیوں سے چھلانگیں لگا دیں مگر ان میں سے اکثر شدید زخمی ہو گئے یا پھر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
زخمیوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ آگ اس قدر تیزی سے پھیلی کے اندر موجود افراد کے لیے دروازے تک رسائی ناممکن ہوگئی۔
اسپتال ذرائع اور حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ تمام رات آگ کی لپیٹ میں رہنے والی فیکٹری کی عمارت کسی وقت بھی منہدم ہو سکتی ہے۔
جائے وقوعہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکمران اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما فاروق ستار نے کہا کہ واقعے کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے گی۔’’ لواحقین کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا ۔۔۔ جس کی کوتاہی سے بھی یہ ہوا اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں گی۔‘‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ آگ لگنے کی خبر سنتے ہی ڈیوٹی پر موجود محافظوں نے چوری کے خدشے کے پیش نظر فیکٹری کے چار میں سے تین دروازے بند کردیے جس کے باعث ملازمین عمارت کے اندر محصور ہو کر رہ گئے۔
حادثے کے وقت فیکٹری میں موجود ایک مزدور منور ورایو نے عمارت کے اندر کا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر طرف آگ کے شعلے تھے اور لوگ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔
’’میں ایک گھنٹے تک ادھر اُدھر بھاگتا رہا تاکہ فیکڑی سے باہر نکل سکوں لیکن کوئی مدد کرنے نہیں آیا۔ تمام دروازے بند تھے جب کہ میرے سامنے پانچ بھائی چلا چلا کر فریاد کرتے رہے کہ بھیا ہمیں بچا لو لیکن میں کچھ نہیں کر سکا۔‘‘
پولیس کی ٹیمیں فیکٹری مالکان کی گرفتاری کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں میں چھاپے ماررہی ہیں۔
وفاقی وزارت داخلہ نے اُن افراد کی فہرست میں فیکٹری کے مالکان کے نام شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے جو ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مزدوروں کی عالمی تنظیم آئی ایل کے پاکستان میں ڈائریکٹر فرانچسکو ڈی او ویڈیو نے پاکستان میں فیکٹریوں میں آتشزدگی کے ایسے مہلک واقعات پر قابو پانے کی سرکاری کوششوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
’’پاکستان میں لاتعداد ایسی فیکٹریاں ہیں جو غیر قانونی طور پر یا بغیر رجسٹریشن کے کام کررہی ہیں اس لیے ان پر قوانین کا اطلاق بہت مشکل ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ایسی فیکٹریوں کی بندش سے مسائل حل نہیں ہوں گا بلکہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ سنجیدگی سے سماجی شراکت داری کے ذریعے ان مقامات پر مزدوروں کے لیے ماحول کو محفوظ بنانے پر توجہ دے۔
اس سے قبل منگل کی شام لاہور میں جُوتوں کی ایک فیکٹری میں بھی حادثاتی طور پر لگنے والی آگ میں کم ازکم 25 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔
آتشزدگی کے دونوں واقعات کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکام نے تحقیقات کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
ان حادثات کے بعد ناقدین ایک بار پھر پاکستان میں فیکٹریوں میں مزدوروں کے تحفظ کے لیے ناکافی اقدامات پر مالکان اور متعلقہ حکام کو ذمہ دار ٹھرا رہے ہیں۔