واشنگٹن —
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی ایک اہم تنظیم نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک میں نیا تعلیمی سال شروع ہونے کو ہے، اعلیٰ تعلیم کے حصول میں خواتین پر لگائی جانے والی پابندیاں نرم کرے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ہفتے کے روز کہا کہ ایران نے ایسے کورسز کی تعداد میں کمی کردی ہے جنہیں خواتین کالج میں لے سکتی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے امور کی ڈائریکٹر لیزل گیرن تھولز نے ایران کی مہر نیوز ایجنسی کی اس رپورٹ پر نکتہ چینی کی جس کے مطابق 77 تعلیمی شعبوں میں خواتین کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ حکام نے من مانی کرتے ہوئے جن اہم شعبوں میں خواتین کا داخلہ بند کیا ہے، ان میں کمپیوٹر سائنس، کیمیکل انجنیئرنگ اور مکینیکل انجنیئرنگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں لیزل کا کہناتھا کہ یہ پابندیاں بظاہر تعلیم کےحصول کی آزادی پر ایک بڑی ضرب کا حصہ دکھائی دیتی ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ یہ پابندیاں تعلیمی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے جاری عمل کا حصہ ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ ایرانی حکومت کی نئی گائیڈلائنز اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ مردوں کے لیے جن تعلیمی کورسز کے دروازے بند کیے گئے ہیں، ان کی تعداد محدود ہے۔
اگست میں ایران کی نوبیل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادی نے کئی تعلیمی شعبوں کے دورازے خواتین پر بند کرنے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
اقوام متحدہ کو لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہاتھا کہ نئے قوانین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایران عوامی شعبوں میں خواتین کی موجودگ کے حق میں نہیں ہے۔
تعلیم سے متعلق ایرانی عہدے داروں کا کہناہے کہ غیر ملکی میڈیا سیاق و سباق سے ہٹ کر کام لے رہاہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ہفتے کے روز کہا کہ ایران نے ایسے کورسز کی تعداد میں کمی کردی ہے جنہیں خواتین کالج میں لے سکتی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے امور کی ڈائریکٹر لیزل گیرن تھولز نے ایران کی مہر نیوز ایجنسی کی اس رپورٹ پر نکتہ چینی کی جس کے مطابق 77 تعلیمی شعبوں میں خواتین کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ حکام نے من مانی کرتے ہوئے جن اہم شعبوں میں خواتین کا داخلہ بند کیا ہے، ان میں کمپیوٹر سائنس، کیمیکل انجنیئرنگ اور مکینیکل انجنیئرنگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں لیزل کا کہناتھا کہ یہ پابندیاں بظاہر تعلیم کےحصول کی آزادی پر ایک بڑی ضرب کا حصہ دکھائی دیتی ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ یہ پابندیاں تعلیمی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے جاری عمل کا حصہ ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ ایرانی حکومت کی نئی گائیڈلائنز اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ مردوں کے لیے جن تعلیمی کورسز کے دروازے بند کیے گئے ہیں، ان کی تعداد محدود ہے۔
اگست میں ایران کی نوبیل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادی نے کئی تعلیمی شعبوں کے دورازے خواتین پر بند کرنے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
اقوام متحدہ کو لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہاتھا کہ نئے قوانین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایران عوامی شعبوں میں خواتین کی موجودگ کے حق میں نہیں ہے۔
تعلیم سے متعلق ایرانی عہدے داروں کا کہناہے کہ غیر ملکی میڈیا سیاق و سباق سے ہٹ کر کام لے رہاہے۔