رسائی کے لنکس

گجرات: چار سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کا ملزم 'پولیس مقابلے' میں ہلاک


  • بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پانچ جنوری کو گجرات کی تحصیل سرائے عالمگیر میں پیش آیا تھا۔
  • پولیس نے اس واقعے میں ملوث ملزم کا سراغ لگانے کے لیے پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔
  • گجرات پولیس نے وقوعے کے 11 ویں روز ڈی این اے رپورٹ آنے پر ملزم کی باضابطہ طور پر گرفتاری بھی ڈال دی تھی۔
  • ایس پی انویسٹی گیشن مہر ریاض ناز کے مطابق زیرِ حراست ملزمان کا پولی گرافک ٹیسٹ کروایا گیا جس میں ایک ملزم ندیم جٹ بے ہوش ہو گیا تھا۔

گجرات -- پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں چار سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کا ملزم مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔

چار سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کر کے اُسے قتل کرنے والا ملزم ندیم جٹ اس کا محلے دار تھا جس کی تصدیق پولیس نے جمعرات کو ملزم کا ڈی این اے میچ ہونے کے بعد کی تھی۔

بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پانچ جنوری کو گجرات کی تحصیل سرائے عالمگیر میں پیش آیا تھا جب بچی ٹیوشن پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی تھی۔ اگلے روز اس کی بوری بند لاش ملی تھی۔

گجرات پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم ندیم جٹ کو آلہ قتل اور کپڑوں کی ریکوری کے لیے رات گئے لے جایا جا رہا تھا کہ یہ پولیس حراست سے فرار ہو گیا جس کی تلاش کی گئی۔ اس دوران پولیس کا ملزم اور اس کے ساتھیوں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں اس کے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہی ندیم جٹ مارا گیا جب کہ مارے جانے والے ملزم کے تمام ساتھی فرار ہو گئے اور کسی پولیس اہلکار کو خراش تک نہیں آئی۔

'ڈی این اے میچ ہونے سے پولیس کی جان میں جان آ گئی'

پولیس نے اس واقعے میں ملوث ملزم کا سراغ لگانے کے لیے پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے جائے وقوعہ اور اس کے اردگرد سے ڈی این اے سیمپلز اور دیگر شواہد اکٹھے کیے۔

اس دوران 73 مختلف جگہوں سے ڈی این اے کے نمونہ جات حاصل کیے گئے جن میں سے 24 جگہوں پر انسانی ڈی این اے کے نشانات پائے گئے۔

پولیس نے بچی کی لاش ملنے والے علاقے کے اطراف کے گھروں سے پانچ مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی اور ان کے پولی گرافک ٹیسٹ لیے گئے اور سیمپل پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی لاہور بھجوائے گئے۔ یہاں سے ملزم ندیم جٹ کا ڈی این اے مقتولہ بچی کے سیمپل سے میچ کر گیا۔

گجرات پولیس نے وقوعے کے 11 ویں روز ڈی این اے رپورٹ آنے پر ملزم کی باضابطہ طور پر گرفتاری بھی ڈال دی تھی۔

ملزم کو جمعے کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم سے قتل کے وقوعے میں استعمال ہونے والی اشیا اور کپڑوں کی برآمدگی کے لیے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جائے گا، تاہم اس سے پہلے ہی زیرِ حراست ملزم مارا گیا۔

'چالاک ملزم پولیس کو چکمہ دینے کی کوشش کرتا رہا'

پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے افراد کی عمریں 16 سے 22 سال کے درمیان تھیں تاہم صرف ملزم ندیم جٹ ہی ان سب میں شادی شدہ تھا جس کی عمر 34 سال تھی اور وہ دو بچوں کا باپ تھا۔

ملزم سے تفتیش کرنے والی ٹیم میں شامل ایک افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب ملزم سے تفتیش کی گئی تو اس کا کہنا تھا کہ وہ خود دو چھوٹے بچوں کا باپ ہے وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے۔

دوسری طرف جو باقی لڑکے زیرِ حراست تھے وہ بھی اس قتل سے انکاری تھے جس پر تفتیشی افسران کے سامنے یہ ایک سوال تھا کہ اگر قاتل ان پانچوں افراد میں سے بھی نہ نکلا تو پھر قاتل کہاں گیا۔

ایس پی انویسٹی گیشن مہر ریاض ناز کے مطابق زیرِ حراست ملزمان کا پولی گرافک ٹیسٹ کروایا گیا جس میں ایک ملزم ندیم جٹ بے ہوش ہو گیا تھا۔

دوسرے دن پولی گرافک ٹیسٹ میں بھی ملزم کی حالت غیر ہو گئی بعدازاں تیسرے دن پولی گرافک ٹیسٹ کامیاب ہو گیا جس میں ملزم کی تصدیق ہوئی جس کے بعد آواز کی میچنگ کے لیے ملزم کا ڈیجیٹل وائس ٹیسٹ بھی کروایا گیا جس میں ملزم کو بچی کی چیخوں کی آواز سے ٹریس کیا گیا جو کہ سی سی ٹی وی کی آڈیو ریکارڈنگ میں ریکارڈ ہو گئی تھیں۔

ایس پی انویسٹی گیشن کے مطابق ملزم کی حرکتوں کی وجہ سے پولیس کو اس پر قوی شک تھا اور افسران اسے جرم کا اعتراف کروانے کے لیے اس پر نفسیاتی حربے بھی استعمال کرتے رہے۔ لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا کہ "میں کیوں قتل کروں گا، وہ میری بیٹی کی عمر کے برابر ہے۔ آپ کوئی اور قاتل ڈھونڈیں۔"

'بچی ٹیوشن پڑھنے جارہی تھی، ملزم نے دروازے پر دبوچ لیا'

بچی کا گھر اور جہاں اس نے ٹیوشن پڑھنے جانا تھا ان دنوں گھروں کے درمیان ہی ملزم کا گھر تھا۔

ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے دوران زیرِ حراست ملزم نے پولیس کو بتایا کہ وہ کافی دنوں سے موقع کی تاک میں تھا۔ لیکن پانچ جنوری کی سہ پہر جب بچی ٹیوشن پڑھنے کے لیے جا رہی تھی اور اس کے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزری تو ملزم نے اسے دبوچ لیا۔

پولیس کے مطابق ملزم نے بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے قتل کر دیا اور اس کی لاش پلاسٹک کی بوری میں بند کر کے ایک ویران حویلی نما گھر کی چھت سے نیچے پھینک دی۔

پولیس کے مطابق ملزم ندیم جٹ دو کمسن بچوں ایک بیٹی اور بیٹے کا باپ اور ہیڈ رسول کے ایک نجی کالج میں بطور مالی کام کرتا تھا۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کے مطابق پاکستان میں یومیہ 11 بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔

ایک سال کے دوران مجموعی طور پر 4213 بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، کیسز کی کل تعداد میں بچوں کے جنسی استحصال کے رپورٹ شدہ کیسز، اغوا اور لاپتا بچوں کے کیسز شامل ہیں۔

"پاکستان میں روزانہ 12 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں"
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:48 0:00

واقعات میں سے 2251 یعنی 53 فی صد متاثرین لڑکیاں اور 1962 یعنی 47 لڑکے تھے جب کہ 121 بچوں کو قتل کیا گیا۔

پنجاب ہی کے شہر قصور میں سات سال قبل آٹھ سالہ بچی زنیب کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی تھی۔

اس واقعے کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے بھی کور کیا تھا۔پولیس نے قاتل عمران علی کو نہ صرف گرفتار کر لیا بلکہ اسے وقوعہ کے دس ماہ بعد لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں اسے پھانسی دے دی گئی تھی۔

فورم

XS
SM
MD
LG