امریکی صدارتی انتخابی مہم پر ’یو ایس اے ٹوڈے‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ بالعموم یہ مہمیں دیانتداری کا نمونہ نہیں ہوتیں، لیکن رواں سال کی انتخابی مہم میں دروغ بافی، بے شرمی اور غلط بیانی کے نئی معیار قائم ہو رہے ہیں۔
حقائق کو توڑنا مروڑنا تو ہے ہی بُری بات، لیکن طرفین کی دروغ بیانی کی نشاندہی حقائق کا سراغ لگانے والے ادارے کرتے ہیں تو اُن کی طرف سے جس ردِ عمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ بھی اِسی قدر معنی خیز ہوتا ہے۔یہ ادارے ووٹروں کو دونوں جانب سے کیے جانے والے دعووٴں اور جوابی دعوؤں کی اصلیت سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ طرفین کی طرف سے اِس کا ردِ عمل پیچھے ہٹنا نہیں ہوتا، بلکہ حقائق کی قلعی کھولنے والے کو تنقید کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے ‘کہتا ہے کہ امیدواروں کا زور حقائق سے زیادہ اِس بات پر ہوتا ہے کہ اُن کے پیغام میں کتنی تاثیر ہے۔
اب کی بار نئی بات یہ ہے کہ انتخابی مہم چلانے والے اب وہ باتیں ببانگ دہل کہتے ہیں جن کے بارے میں وہ محض سوچتے تھے اور اپنے تک محدود رکھتے تھے۔
مثلا ً، مِٹ رامنی کے ایک اشتہار کے تجزیے سے اُس کے مفروضے کی غلطی پکڑی گئی تو ایک ریپبلیکن رکن کانگریس پیٹر کنگ نے ’سی این این ٹیلی ویژن‘ پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ حقائق تلاش کرنے والے کیا دریافت کرتے ہیں۔ بلکہ ایک ریپبلیکن پولسٹر نیل نیو ہاؤس نے ریپبلیکن کنوینشن کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ہم اپنی انتخابی مہم حقائق کا کھوج لگانے والوں کے تابع نہیں کریں گے۔
اوباما کی انتخابی مہم کے بارے میں بھی اداریے میں لکھا گیا ہے کہ وہ اتنے بھدے خطوط پر تو نہیں چلائی جاتی۔
البتہ، اِس کا پیغام یہ ہے حقائق کی کوئی پرواہ مت کرو۔ یہ مہم کامیاب جا رہی ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
اخبار کہتا ہے کہ حقائق کی تفتیش بیشتر صحافی سرانجام دے رہے ہیں۔ اب اُن پر تعصب برتنے کا الزام لگایا جارہا ہے اور اُن کے کام میں کیڑے نکالے جارہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ حقائق کی تفتیش کرنے والوں کا روئے سخن سیاست دان نہیں ہیں بلکہ ووٹر ہیں، جو ایک دوسرے پر حملے کرنے والے اشتہاروں کے بے لاگ تجزئے سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ فرشتے نہیں ہوتے، لیکن اُن کا تجزیہ اُس بیان کے مقابلے میں اکثر حقیقت کے زیادہ قریب ہوتا ہے جو ووٹر امیدواروں کی اپنی زبان سے سنتے ہیں۔
صدارتی مہم کے دوران ووٹروں کی رائے کے بہت جائزےلیے جارہے ہیں اور ’ڈٹرائیٹ نیوز‘ اخبار کہتا ہے کہ اب جبکہ انتخابات کا دن صرف چھ ہفتے دور رہ گیا ہے، اِن کی وجہ سے تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔
اخبار کے تجزیہ کار ڈائیل میک مینس کہتے ہیں کہ پچھلے ہفتے رائے عامہ کے ایک بااعتبار جائزے کے مطابق صدر اوباما کو اپنے حریف مِٹ رامنی پر آٹھ پوائنٹس کی سبقت حاصل ہوگئی تھی۔
لیکن، ایک اور جائزے کے مطابق مقابلہ برابر برابر ہے، جب کہ دوسرے جائزوں کے مطابق صورت حال دونوں کے درمیان بتائی گئی تھی۔
ایسے میں غریب ووٹر کس پر اعتماد کرے۔
تجزیہ نگار نے استصواب کرنے والے دو ذہین افراد سے رُجوع کیا تو اُن کا ایک ہی مشورہ تھا، یعنی دھیرج رکھو۔
یہ معاملہ جتنا پیچیدہ لگ رہا ہے اتنا پیچیدہ نہیں ہے۔
غیر جانبدار ’پیو انسٹی ٹیوٹ ‘ کے صدر انڈریو کوہوٹ کہتے ہیں کہ دانشمندی کی بات یہ ہوگی کہ مختلف جائزوں کے مجموعے پر توجہ مرکوز کرنا اور رُجحان کا متعین کرنا۔ ویسے، اِس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق صدر اوباما کو آٹھ پوائنٹس کی سبقت حاصل ہے۔
چناچہ، تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ تمام جائزوں کے مجموعے کے بعد پچھلے ہفتے کے اختتام پر اوباما کو چا ر پوائنٹس کی سبقت حاصل تھی۔
میک مینس کہتے ہیں کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سبقت کیسے ممکن ہوئی، جبکہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فی صد ہے۔ میک ی صورت میں تو ریپبلیکن کامیابی یقینی ہونی چاہیئے تھی۔ بلکہ، چند ہفتے قبل تک رامنی کیمپ کے مشیر پُر اعتماد تھے کہ اس ماہ کے اوائیل میں معیشت کے بارے میں بُری رپورٹ کے پیش نظر وہ ووٹر جنھوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ کس کو ووٹ دینا ہے سیدھے ریبپلیکن جھولی میں چلے جانے چاہئیے تھے ۔
لیکن، ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ، ووٹر اب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ قومی معیشت کے بارے میں پُر اعتماد ہیں۔ چناچہ، تجزیہ کار مِٹ رامنی کو مشورہ ہے کہ اگر وہ یہ صورت حال بدلنا چاہتے ہیں تو اُنھیں اپنا پیغام منفی سے ہٹا کر مثبت کر دینا چاہیئے اور ایسا اقتصادی منصوبہ اُن کے سامنے رکھنا چاہیئے جو اکتوبر میں تین صدارتی مباحثوں کے دوران اُن کی کامیاب کرنے والی کارکردگی ثابت ہوسکے۔
نیو یارک میں وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے مصر کے نئے اسلامی صدر محمد مرسی کی یقین دہانی کردی ہے کہ وسط مشرق میں امریکہ کے خلاف احتجاجوں سے قطع نظر امریکہ اپنے اقتصادی امداد کے پروگرام پر عمل پیرا رہے گا۔
رائیٹرز ایجنسی کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر مرسی کے ساتھ ملاقات کے دوران مسز کلنٹن نے اوباما انتظامیہ کے اِس عہد کا اعادہ کیا کہ مصر کو دونوں فوجی اور اقتصادی امداد دی جاتی رہے گی۔
سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں امریکہ مصر کو سالانہ ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کررہا ہے۔
مسٹر مرسی نے اپنے ملک میں اقتصادی اصلاحات پرعمل درآمد کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے چار اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کے منصوبے کی وضاحت کی اور عہدے داروں کے مطابق امریکہ اِس قرضے کی حمایت کرتا ہے۔
حقائق کو توڑنا مروڑنا تو ہے ہی بُری بات، لیکن طرفین کی دروغ بیانی کی نشاندہی حقائق کا سراغ لگانے والے ادارے کرتے ہیں تو اُن کی طرف سے جس ردِ عمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ بھی اِسی قدر معنی خیز ہوتا ہے۔یہ ادارے ووٹروں کو دونوں جانب سے کیے جانے والے دعووٴں اور جوابی دعوؤں کی اصلیت سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ طرفین کی طرف سے اِس کا ردِ عمل پیچھے ہٹنا نہیں ہوتا، بلکہ حقائق کی قلعی کھولنے والے کو تنقید کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے ‘کہتا ہے کہ امیدواروں کا زور حقائق سے زیادہ اِس بات پر ہوتا ہے کہ اُن کے پیغام میں کتنی تاثیر ہے۔
اب کی بار نئی بات یہ ہے کہ انتخابی مہم چلانے والے اب وہ باتیں ببانگ دہل کہتے ہیں جن کے بارے میں وہ محض سوچتے تھے اور اپنے تک محدود رکھتے تھے۔
مثلا ً، مِٹ رامنی کے ایک اشتہار کے تجزیے سے اُس کے مفروضے کی غلطی پکڑی گئی تو ایک ریپبلیکن رکن کانگریس پیٹر کنگ نے ’سی این این ٹیلی ویژن‘ پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ حقائق تلاش کرنے والے کیا دریافت کرتے ہیں۔ بلکہ ایک ریپبلیکن پولسٹر نیل نیو ہاؤس نے ریپبلیکن کنوینشن کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ہم اپنی انتخابی مہم حقائق کا کھوج لگانے والوں کے تابع نہیں کریں گے۔
اوباما کی انتخابی مہم کے بارے میں بھی اداریے میں لکھا گیا ہے کہ وہ اتنے بھدے خطوط پر تو نہیں چلائی جاتی۔
البتہ، اِس کا پیغام یہ ہے حقائق کی کوئی پرواہ مت کرو۔ یہ مہم کامیاب جا رہی ہے۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
اخبار کہتا ہے کہ حقائق کی تفتیش بیشتر صحافی سرانجام دے رہے ہیں۔ اب اُن پر تعصب برتنے کا الزام لگایا جارہا ہے اور اُن کے کام میں کیڑے نکالے جارہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ حقائق کی تفتیش کرنے والوں کا روئے سخن سیاست دان نہیں ہیں بلکہ ووٹر ہیں، جو ایک دوسرے پر حملے کرنے والے اشتہاروں کے بے لاگ تجزئے سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ فرشتے نہیں ہوتے، لیکن اُن کا تجزیہ اُس بیان کے مقابلے میں اکثر حقیقت کے زیادہ قریب ہوتا ہے جو ووٹر امیدواروں کی اپنی زبان سے سنتے ہیں۔
صدارتی مہم کے دوران ووٹروں کی رائے کے بہت جائزےلیے جارہے ہیں اور ’ڈٹرائیٹ نیوز‘ اخبار کہتا ہے کہ اب جبکہ انتخابات کا دن صرف چھ ہفتے دور رہ گیا ہے، اِن کی وجہ سے تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔
اخبار کے تجزیہ کار ڈائیل میک مینس کہتے ہیں کہ پچھلے ہفتے رائے عامہ کے ایک بااعتبار جائزے کے مطابق صدر اوباما کو اپنے حریف مِٹ رامنی پر آٹھ پوائنٹس کی سبقت حاصل ہوگئی تھی۔
لیکن، ایک اور جائزے کے مطابق مقابلہ برابر برابر ہے، جب کہ دوسرے جائزوں کے مطابق صورت حال دونوں کے درمیان بتائی گئی تھی۔
ایسے میں غریب ووٹر کس پر اعتماد کرے۔
تجزیہ نگار نے استصواب کرنے والے دو ذہین افراد سے رُجوع کیا تو اُن کا ایک ہی مشورہ تھا، یعنی دھیرج رکھو۔
یہ معاملہ جتنا پیچیدہ لگ رہا ہے اتنا پیچیدہ نہیں ہے۔
غیر جانبدار ’پیو انسٹی ٹیوٹ ‘ کے صدر انڈریو کوہوٹ کہتے ہیں کہ دانشمندی کی بات یہ ہوگی کہ مختلف جائزوں کے مجموعے پر توجہ مرکوز کرنا اور رُجحان کا متعین کرنا۔ ویسے، اِس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق صدر اوباما کو آٹھ پوائنٹس کی سبقت حاصل ہے۔
چناچہ، تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ تمام جائزوں کے مجموعے کے بعد پچھلے ہفتے کے اختتام پر اوباما کو چا ر پوائنٹس کی سبقت حاصل تھی۔
میک مینس کہتے ہیں کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سبقت کیسے ممکن ہوئی، جبکہ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فی صد ہے۔ میک ی صورت میں تو ریپبلیکن کامیابی یقینی ہونی چاہیئے تھی۔ بلکہ، چند ہفتے قبل تک رامنی کیمپ کے مشیر پُر اعتماد تھے کہ اس ماہ کے اوائیل میں معیشت کے بارے میں بُری رپورٹ کے پیش نظر وہ ووٹر جنھوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ کس کو ووٹ دینا ہے سیدھے ریبپلیکن جھولی میں چلے جانے چاہئیے تھے ۔
لیکن، ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ، ووٹر اب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ قومی معیشت کے بارے میں پُر اعتماد ہیں۔ چناچہ، تجزیہ کار مِٹ رامنی کو مشورہ ہے کہ اگر وہ یہ صورت حال بدلنا چاہتے ہیں تو اُنھیں اپنا پیغام منفی سے ہٹا کر مثبت کر دینا چاہیئے اور ایسا اقتصادی منصوبہ اُن کے سامنے رکھنا چاہیئے جو اکتوبر میں تین صدارتی مباحثوں کے دوران اُن کی کامیاب کرنے والی کارکردگی ثابت ہوسکے۔
نیو یارک میں وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے مصر کے نئے اسلامی صدر محمد مرسی کی یقین دہانی کردی ہے کہ وسط مشرق میں امریکہ کے خلاف احتجاجوں سے قطع نظر امریکہ اپنے اقتصادی امداد کے پروگرام پر عمل پیرا رہے گا۔
رائیٹرز ایجنسی کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر مرسی کے ساتھ ملاقات کے دوران مسز کلنٹن نے اوباما انتظامیہ کے اِس عہد کا اعادہ کیا کہ مصر کو دونوں فوجی اور اقتصادی امداد دی جاتی رہے گی۔
سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں امریکہ مصر کو سالانہ ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کررہا ہے۔
مسٹر مرسی نے اپنے ملک میں اقتصادی اصلاحات پرعمل درآمد کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے چار اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کے منصوبے کی وضاحت کی اور عہدے داروں کے مطابق امریکہ اِس قرضے کی حمایت کرتا ہے۔