اسلام آباد —
پاکستان میں وزارت تعلیم کے عہدیداروں نے ملک میں دو ہزار ایسے ’’گھوسٹ‘‘ یعنی فرضی سرکاری اسکولوں کی نشاندہی کی ہے جن کا وجود محض کاغذات کی حد تک ہے۔
وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت شاہ جہان یوسف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کے ایک خصوصی منصوبے کے تحت آٹھ ارب روپے کی لاگت سے 20 ہزار کمیونٹی اسکول بننے تھے۔ لیکن ان کے بقول بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر 2010ء میں کام رک گیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ وزارت تعلیم کو بتایا گیا کہ 15 ہزاراسکول قائم کیے جا چکے ہیں جن کی تحقیقات شروع کی گئیں اور معلوم ہوا کہ ان میں دو ہزار ’’گھوسٹ‘‘ اسکول ہیں۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ ایسے اسکول جن کا ذکر صرف سرکاری دستاویزات تک محدود تھا ان کے بارے میں وزارت تعلیم نے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور کمیونٹی اسکولز منصوبے میں ڈائریکٹرز کے عہدوں پر فائز چار افسران کے خلاف مالی خورد برد کے الزامات کی چھان بین بھی جاری ہیں۔
شاہ جہاں یوسف کے بقول اُن کی وزارت کی طرف سے ’’گھوسٹ‘‘ اسکولوں کے بارے میں درج مقدمات مزید تحقیقات کے لیے نیب (قومی احتساب بیورو) اور ایف آئی اے (فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی) کو بھیج دیے گئے ہیں۔
اس سے قبل وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت نے جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں اراکین کو یقین دلایا کہ مالی خورد برد اور سرکاری وسائل سے فرضی اسکولوں کے قیام میں ملوث افسران کے خلاف تحقیقات جلد مکمل کرلی جائیں گی۔
پاکستان میں تعلیم کے لیے بجٹ میں بمشکل دو فیصد فنڈز مختص کیے جاتے ہیں مگر ان محدود مالی وسائل کا ایک بڑا حصہ بھی بدانتظامی اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے جو ملک میں سرکاری نظام تعلیم کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت شاہ جہان یوسف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کے ایک خصوصی منصوبے کے تحت آٹھ ارب روپے کی لاگت سے 20 ہزار کمیونٹی اسکول بننے تھے۔ لیکن ان کے بقول بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر 2010ء میں کام رک گیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ وزارت تعلیم کو بتایا گیا کہ 15 ہزاراسکول قائم کیے جا چکے ہیں جن کی تحقیقات شروع کی گئیں اور معلوم ہوا کہ ان میں دو ہزار ’’گھوسٹ‘‘ اسکول ہیں۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ ایسے اسکول جن کا ذکر صرف سرکاری دستاویزات تک محدود تھا ان کے بارے میں وزارت تعلیم نے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور کمیونٹی اسکولز منصوبے میں ڈائریکٹرز کے عہدوں پر فائز چار افسران کے خلاف مالی خورد برد کے الزامات کی چھان بین بھی جاری ہیں۔
شاہ جہاں یوسف کے بقول اُن کی وزارت کی طرف سے ’’گھوسٹ‘‘ اسکولوں کے بارے میں درج مقدمات مزید تحقیقات کے لیے نیب (قومی احتساب بیورو) اور ایف آئی اے (فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی) کو بھیج دیے گئے ہیں۔
اس سے قبل وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت نے جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں اراکین کو یقین دلایا کہ مالی خورد برد اور سرکاری وسائل سے فرضی اسکولوں کے قیام میں ملوث افسران کے خلاف تحقیقات جلد مکمل کرلی جائیں گی۔
پاکستان میں تعلیم کے لیے بجٹ میں بمشکل دو فیصد فنڈز مختص کیے جاتے ہیں مگر ان محدود مالی وسائل کا ایک بڑا حصہ بھی بدانتظامی اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے جو ملک میں سرکاری نظام تعلیم کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ ہے۔