واشنگٹن ڈی سی کی ایک ضلعی عدالت نے شہر کے زیر زمین ریلوے نظام کو اپنے اسٹیشنوں پرایک ایسے اسرائیل نواز اشتہار آویزاں کرنے کی اجازت دے دی ہے جس میں مسلمان شدت پسندوں کو وحشی کہا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آزادی اظہار بیہودہ بھی ہو تو امریکی آئین کی پہلی ترمیم اس کی اجازت دیتی ہے۔
میٹرو ریلوے نظام کے عہدیداروں کو خدشہ ہے کہ لیبیا میں امریکی سفارتخانے پر حملے کےبعد، اس ا شتہار سے تشدد کو ہوا مل سکتی ہے۔
اشتہار میں کہا گیا ہے کہ لوگ ، مہذب اور وحشی انسان کے درمیان جنگ میں، مہذب انسان کی حمایت کریں اور اسرائیل کاساتھ دے کر نام نہاد جہاد کو شکست دیں۔
مسلمانوں کی اکثریت کے لیے جہاد کا مطلب روحانی بالیدگی کا حصول ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس لفظ کو تشدد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز نامی تنظیم ،امریکی مسلمانوں کے حقوق کے لئے کام کرتی ہے۔ اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نِہاد عواد کہتے ہیں کہ ابھی تک اس اشتہار دیکھنے والوں کی غالب اکثریت نے اس کے پیچھے کارفرما تعصب، نفرت اور اس کے منتظمین کی مذمت کی ہے۔
اس اشتہار کی حمایت امریکن فریڈم ڈیفنس انی شیٹو نامی اسرائیل نواز گروپ کر رہا ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ میں اسلامی طرزِ فکر کے فروغ کے خلاف لڑ رہا ہے۔ شہری حقوق سے متعلق دو امریکی تنظیموں نے اس گروپ کو منافرت پھیلانے والے اداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
ستمبر میں یہ اشتہار، نیویارک کے زیر زمین ریلوے سٹیشنوں پر آویزاں کئے گئے تھے۔اس تنظیم نے وہاں بھی اس کی عدالتی جنگ جیتی تھی۔ گروپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پامیلا گیلر حالیہ واقعات کی بنا پر اشتہارات کی نمائش میں تاخیر کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وقت کبھی بھی سازگار نہیں ہوتا۔ اگر یہ اشتہار نہیں ہونگے تو پھر فلم ہو گی۔ اگر فلم نہیں ہو گی تو پھر کوئی ڈنمارک یا سویڈن یا فرانس کا کوئی کارٹون ہو گا۔ یوں تو اس جنگ کے خلاف کھل کر بات کرنے کے لئے کبھی بھی سازگار وقت نہیں ہوگا۔
واشنگٹن میٹرو کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی اشتہاروں کی نمائش کے بعد، تشدد کےامکان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
نیویارک میں اشتہار آویزاں ہونے کے بعداسے انیہں پھاڑ نے کے بعض معمولی واقعات کی اطلاعات ملی ہیں، لیکن مجموعی طور پر احتجاج قابو میں رہا ہے۔
واشنگٹن میں شہری حقوق سے متعلق تنظیم، امیریکن سول لبرٹیز یونین کی ڈائریکٹر بنیٹا سٹینڈلے کہتی ہیں کہ تشدد کے خطرے کی بنا کہ پر آزادی اظہار کے تحفظ کی آئینی ترمیم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہناتھا کہ کسی بھی قسم کے نفرت انگیز مواد سے مقابلے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے خلاف پر امن طریقے سے اظہار کیا جائے۔
نِہادعواد کہتے ہیں امریکی مسلمانوں کی تنظیمیں، چند ہی دنوں میں اپنے اشتہارات لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں لوگ ایسے اشتہار دیکھنا پسند کریں گے جن میں محبت، بھائی چارے، صلح و سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کی بات کی گئی ہو، نہ کہ ایسے نفرت انگیز مواد کی جو امریکی معاشرتی زندگی کو نقصان پہنچائیں اور عوام کو نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کریں۔
میٹرو ریلوے نظام کے عہدیداروں کو خدشہ ہے کہ لیبیا میں امریکی سفارتخانے پر حملے کےبعد، اس ا شتہار سے تشدد کو ہوا مل سکتی ہے۔
اشتہار میں کہا گیا ہے کہ لوگ ، مہذب اور وحشی انسان کے درمیان جنگ میں، مہذب انسان کی حمایت کریں اور اسرائیل کاساتھ دے کر نام نہاد جہاد کو شکست دیں۔
مسلمانوں کی اکثریت کے لیے جہاد کا مطلب روحانی بالیدگی کا حصول ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس لفظ کو تشدد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز نامی تنظیم ،امریکی مسلمانوں کے حقوق کے لئے کام کرتی ہے۔ اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نِہاد عواد کہتے ہیں کہ ابھی تک اس اشتہار دیکھنے والوں کی غالب اکثریت نے اس کے پیچھے کارفرما تعصب، نفرت اور اس کے منتظمین کی مذمت کی ہے۔
اس اشتہار کی حمایت امریکن فریڈم ڈیفنس انی شیٹو نامی اسرائیل نواز گروپ کر رہا ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ میں اسلامی طرزِ فکر کے فروغ کے خلاف لڑ رہا ہے۔ شہری حقوق سے متعلق دو امریکی تنظیموں نے اس گروپ کو منافرت پھیلانے والے اداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
ستمبر میں یہ اشتہار، نیویارک کے زیر زمین ریلوے سٹیشنوں پر آویزاں کئے گئے تھے۔اس تنظیم نے وہاں بھی اس کی عدالتی جنگ جیتی تھی۔ گروپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پامیلا گیلر حالیہ واقعات کی بنا پر اشتہارات کی نمائش میں تاخیر کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وقت کبھی بھی سازگار نہیں ہوتا۔ اگر یہ اشتہار نہیں ہونگے تو پھر فلم ہو گی۔ اگر فلم نہیں ہو گی تو پھر کوئی ڈنمارک یا سویڈن یا فرانس کا کوئی کارٹون ہو گا۔ یوں تو اس جنگ کے خلاف کھل کر بات کرنے کے لئے کبھی بھی سازگار وقت نہیں ہوگا۔
واشنگٹن میٹرو کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی اشتہاروں کی نمائش کے بعد، تشدد کےامکان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
نیویارک میں اشتہار آویزاں ہونے کے بعداسے انیہں پھاڑ نے کے بعض معمولی واقعات کی اطلاعات ملی ہیں، لیکن مجموعی طور پر احتجاج قابو میں رہا ہے۔
واشنگٹن میں شہری حقوق سے متعلق تنظیم، امیریکن سول لبرٹیز یونین کی ڈائریکٹر بنیٹا سٹینڈلے کہتی ہیں کہ تشدد کے خطرے کی بنا کہ پر آزادی اظہار کے تحفظ کی آئینی ترمیم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہناتھا کہ کسی بھی قسم کے نفرت انگیز مواد سے مقابلے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے خلاف پر امن طریقے سے اظہار کیا جائے۔
نِہادعواد کہتے ہیں امریکی مسلمانوں کی تنظیمیں، چند ہی دنوں میں اپنے اشتہارات لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں لوگ ایسے اشتہار دیکھنا پسند کریں گے جن میں محبت، بھائی چارے، صلح و سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کی بات کی گئی ہو، نہ کہ ایسے نفرت انگیز مواد کی جو امریکی معاشرتی زندگی کو نقصان پہنچائیں اور عوام کو نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کریں۔