انسداد دہشت گردی کے تجزیہ کار جو جہادیوں کے انٹرنیٹ چیٹ رومز اور ویب سائٹس پر نظر رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ نیو یارک سٹی میں اسلامک سینٹر کے منصوبے کے حوالے سے ان سائٹس پر سرگرمی میں اضافہ نظر آرہا ہے۔
نیو یارک کی سکیورٹی کنسلٹنگ فرم فلیش پوائنٹ گلوبل پارٹنرز کے Evan Kohlmann کہتے ہیں کہ انتہا پسند اسلامی عناصر کو اس صورت حال میں پراپیگنڈا اور نئے لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کا موقع ملا ہے ’’ ایسا لگتا ہے کہ انتہا پسند بغلیں بجا رہے ہیں کہ امریکہ ہمارے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، اور اپنا خراب رخ ظاہر کر رہا ہے اور اگر اس سے مشرقِ وسطیٰ کے لوگ مزید انتہا پسندی کی طرف مائل نہیں ہوتے، تو بھی اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ یہاں امریکہ میں انتہا پسندوں کی چھوٹی سی تعداد تو اس صورت حال کا اثر ضرور قبول کرے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو القاعدہ اور دوسرے انتہا پسندوں کی نظر میں ہیں‘‘۔
القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند گروپ امریکی مسلمانوں کو بڑا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں کیوں کہ وہ امریکہ کے اندر حملے کر سکتے ہیں۔ فورٹ ہوڈ میں گولیاں چلانے والے فوج کے میجرندال حسن اور نیو یارک شہر کے ٹائمز اسکوائر میں بم کا دھماکا کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے فیصل شہزاد دونوں امریکی شہری ہیں۔
تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ یہ دونوں انتہا پسندانہ اسلامی خیالات سے متاثر ہوئے تھے۔
اپنےعالمی جہاد کے پیغا م میں القاعدہ، اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ کی حکومتوں کے لیے جنہیں وہ مرتد کہتی ہے امریکی حمایت پر لعن طعن کرتی ہے۔ لیکن دہشت گردی کے تجزیہ کار برین فشمین کہتے ہیں کہ مسلمان عالمِ انوار الوالکی جو امریکہ میں پیدا ہوئے تھے اور اب یمن میں ہیں، اب نئے لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش میں براہِ راست امریکی مسلمانوں پر توجہ دے رہے ہیں’’ایسا لگتا ہے کہ جہاد کا یہ وسیع تر پیغام امریکی مسلمانوں کو متاثر نہیں کر سکا ہے۔ لیکن مجھے جس خیال سے پریشانی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ الوالکی جیسا شخص خوب جانتا ہے کہ یہاں امریکہ میں کیا چیز کام کرے گی ۔ اور گذشتہ چھ سے نو مہینوں کے دوران ان کا پیغام کسی حد تک مختلف ہو گیا ہے۔ اس میں پرانی باتیں تو ہیں لیکن اس میں اس تصور پر بھی بات کی گئی ہے کہ امریکہ آپ کو نشانہ بنا رہا ہے۔ آپ زیادہ دن تک امریکہ میں محفوظ نہیں رہیں گے اور آپ کو جوابی کارروائی کرنی چاہیئے‘‘۔
بعض امریکی اپنے مسلمان دشمن پیغامات کے ذریعے انتہا پسند مسلمانوں کو مزید مواد فراہم کر رہے ہیں۔ ایک بنیاد پرست مسیحی مذہبی شخصیت ٹیری جونز نےاسلام کو شیطانی مذہب کہا ہےاورعہد کیا ہے کہ وہ گیارہ ستمبر کو اپنے Gainesville کے چرچ میں اجتماعی طور پر قرآن جلائیں گے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جونز کے بیانات سے جہادیوں کے چیٹ رومز میں اور بھی زیادہ سرگرمی اور تشدد کی دھمکیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ برین فشمین کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے میڈیا میں ٹیری جونز جیسے لوگوں کو نفرت پھیلانے کے مخالفین کے مقا بلے میں زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ فشمین کہتے ہیں کہ ’’فلوریڈا میں یا Gainesville میں اس روز پندرہ یا سولہ چرچوں میں پہلے قرآن پڑھا جائے گا اور پھر بین المذاہب سرگرمیاں ہوں گی جن کا مقصد یہ بتانا ہوگا کہ عام امریکی ان چیزوں میں یقین نہیں رکھتے۔ یہ صرف ایک گروپ کی کارستانی ہے ۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کا ایک گروپ موجود ہے جو نفرت انگیز حرکتیں کر رہا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان نفرت بھری کارروائیوں کے مقابلے میں ان چیزوں کو بہت کم توجہ دی جاتی ہے جو ان کے جوا ب میں کی جاتی ہیں‘‘۔
ایوان کوہلمین کہتے ہیں کہ نفرت پھیلانے کی ہر کارروائی سے الوالکی کی حکمت عملی کو تقویت ملتی ہے جس کا مقصد اعتدال پسند امریکی مسلمانوں کو انتہا پسندی کی طرف لے جانا ہے’’جس قسم کی بیان بازی ہو رہی ہے وہ قرآن جلانے کے بارے میں ہو یا اسلام کو شیطانی مذہب کہنے کے بارے میں اس سے سنگین نقصان ہو رہا ہے اور اس سے ندال حسن اور فیصل شہزاد جیسے لوگوں کو اس قسم کی کارروائیوں کی تحریک ملتی ہے جو انھوں نے کی ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ اس قدر زہر آلود باتیں کہی جا رہی ہیں کہ ان سے خاص وہی اعتدال پسند لوگ ہمارے خلاف ہو سکتے ہیں جنہیں ہم اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں‘‘۔
انسداد دہشت گردی کے ماہرین کہتے ہیں کہ خطرہ یہ ہے کہ اس حرکت کے نتیجے میں جو احتجاج اور حملے ہوں گے وہ ان ہنگاموں سے بھی زیادہ سنگین ہوں گے جو ڈنمارک کے ایک اخبار میں پیغمبر اسلام کے کارٹون چھپنے کے بعد ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام کی شبیہ بنانا اسلام میں ممنوع ہے۔
ایوان کوہلمین کہتے ہیں کہ اگر کارٹونوں سے اتنا شدید تشدد ہو سکتا ہے، تو قرآن کے جلانے سے کس قسم کی آگ بھڑکے گی، اس کا تصور بھی محال ہے۔