اسلام آباد —
عالمی یوم خوراک پر پاکستان میں حکام اور امدادی تنظیموں نے اشیائے خوردنی کی قمیتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس صورت حال سے خاص طور پر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے قوت خرید میں تیزی سے ہونے والی کمی کے باعث پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خوراک کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے
ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے باعث نہ صرف غریب افراد بلکہ متوسط آمدنی والے طبقے کے لیے بھی مناسب غذا تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔
’’خوراک کی قمیتوں میں اضافے کے باعث متوسط آمدن والے خاندان اپنے وہ وسائل جو تعلیم اور صحت پر خرچ کرتے تھے اب مجبوراً خوراک کی ضروریات پر صرف کر رہے ہیں۔‘‘
وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر ڈاکٹر قمرالزمان چودھری کہتے ہیں کہ ملک میں سر دست خوراک کی قلت تو نہیں البتہ وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں اشیائے خوردنی کی قمیتوں میں اضافہ ہوا ہے اور معقول قیمت پر خوراک کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔
’’بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے نہ صرف اس سال بلکہ مستقبل میں بھی اس سلسلے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر قمرالزمان کہتے ہیں کہ پاکستان میں زیرکاشت رقبے اور پانی کی دستیابی میں کمی سے بھی ملک میں زرعی پیداوار کم ہوئی ہے۔
’’آبادی میں اضافے کے باعث شہر پھیل رہے ہیں جس سے قیمتی زرعی زمین بھی کم ہو رہی ہے۔‘‘
عالمی ادارہ خوراک ’ڈبلیو ایف پی‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے کیوں کہ اسے روزانہ کی بنیاد پر درکار خوراک سے کم مقدار میں کھانے کو ملتا ہے۔
پاکستانی حکام اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ تین برسوں کے دوران سیلاب کے باعث متاثر ہونے والے خاندان بھی غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس سال بھی بلوچستان اور سندھ کے پانچ اضلاع میں 13 لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں خوراک کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے قوت خرید میں تیزی سے ہونے والی کمی کے باعث پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خوراک کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے
ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے باعث نہ صرف غریب افراد بلکہ متوسط آمدنی والے طبقے کے لیے بھی مناسب غذا تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔
’’خوراک کی قمیتوں میں اضافے کے باعث متوسط آمدن والے خاندان اپنے وہ وسائل جو تعلیم اور صحت پر خرچ کرتے تھے اب مجبوراً خوراک کی ضروریات پر صرف کر رہے ہیں۔‘‘
وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر ڈاکٹر قمرالزمان چودھری کہتے ہیں کہ ملک میں سر دست خوراک کی قلت تو نہیں البتہ وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں اشیائے خوردنی کی قمیتوں میں اضافہ ہوا ہے اور معقول قیمت پر خوراک کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے۔
’’بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے نہ صرف اس سال بلکہ مستقبل میں بھی اس سلسلے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر قمرالزمان کہتے ہیں کہ پاکستان میں زیرکاشت رقبے اور پانی کی دستیابی میں کمی سے بھی ملک میں زرعی پیداوار کم ہوئی ہے۔
’’آبادی میں اضافے کے باعث شہر پھیل رہے ہیں جس سے قیمتی زرعی زمین بھی کم ہو رہی ہے۔‘‘
عالمی ادارہ خوراک ’ڈبلیو ایف پی‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے کیوں کہ اسے روزانہ کی بنیاد پر درکار خوراک سے کم مقدار میں کھانے کو ملتا ہے۔
پاکستانی حکام اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ تین برسوں کے دوران سیلاب کے باعث متاثر ہونے والے خاندان بھی غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس سال بھی بلوچستان اور سندھ کے پانچ اضلاع میں 13 لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں خوراک کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔