ملالہ یوسف زئی پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے اور اسے تکمیل تک پہنچانے کا شبہ جس شخص پر ظاہر کیا گیا ہے، اسے 2009ء میں سوات میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے دوران سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا اور تین ماہ تک قید میں رکھنے کے بعد رہا کردیا تھا۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے دوسینیئر پاکستانی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ 14 سالہ ملالہ پر حملے کی منصوبہ بندی عطااللہ نامی ایک عسکریت پسند نے کی تھی اور جن دوافراد نے اسکول کی ویگن روک کر ملالہ کے سرپر گولی ماری تھی ، ان میں سے ایک عطااللہ تھا۔
عطااللہ کی عمر 30 سال کے لگ بھگ ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ حملے کے بعد وہ ہمسایہ ملک افغانستان فرار ہوچکاہے۔
عہدے داروں کا کہناہے کہ اس نے ملالہ پر حملے کا منصوبہ طالبان کے ایک مفرور کمانڈر مولانا فضل اللہ کے حکم پربنایا تھا۔
ناقدین کا کہناہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو سزائیں دینے کی شرح انتہائی کم ہے ۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے الزام میں جن لوگوں کو پکڑتی ہیں ، ان کی اکثریت کو عدالتیں رہا کردیتی ہیں۔ جس سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کو خطے میں پنپنے اور پھیلنے کا موقع مل رہاہے۔
طالبان کے ایک ترجمان نے، جس کے سرقیمت پاکستان کی حکومت نے 10 کروڑ روپے مقرر کردی ہے، میڈیا کو اپنی ایک ٹیلی فون کال میں کہاتھا کہ ملالہ پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ طالبان کو برابھلا کہتی تھی اور امریکی صدر براک اوباما کی تعریف کرتی تھی۔
پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وادی سوات سے فوجی کارروائی کے ذریعے طالبان کو باہر نکالنے کے بعد 2009ء میں سیکیورٹی فورسز نے عطااللہ کو گرفتار کیا تھا۔ وہ تین مہینے تک سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہا مگر اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا، جس کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا گیا۔
ایک اور سیکیورٹی عہدےدار نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ حکام نے وادی سوات میں عطااللہ کے گھر پر چھاپہ مارنے کے بعد اس کے متعلق کافی معلومات اکھٹی کی ہیں۔
عہدے دار کا کہناہے کہ عطااللہ کی تلاش جاری ہے لیکن اگر وہ افغانستان فرار ہوچکا ہے تو اسے وہاں سے پکڑنا بہت مشکل ہوگا۔
عہدے داروں کو کہناہے کہ حکام ملالہ پر حملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے دوسرے طریقے استعمال کررہے ہیں۔ اس کی والدہ اور دوبھائیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے تا کہ عطااللہ کو مجبور کیاجاسکے کہ وہ خود کو حکام کے حوالے کردے۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ عطااللہ کے دو اور قریبی رشتے داروں کو بھی پکڑا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اسے سوات سے فرار ہونے میں مدد دی تھی، اور ملالہ پر حملے کے بعد اس نے ایک رات ان کے ہاں گذاری تھی۔
ایک اور عہدے دار نے بتایا کہ عطااللہ کو جب 2009 میں پکڑا گیاتھا تو اس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ کٹڑ طالبان نہیں ہے ، صرف ان کے نظریات سے متاثر ہے۔
سوات پر طالبان کے غلبے کے دوران ان کا کمانڈر مولانا فضل اللہ تھا ، جو فوجی کارروائی کے بعد اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ افغانستان کی جانب فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ فوجی کارروائی سے سوات میں اس کی طاقت کا شیرازہ بکھر گیا اور وہاں حکومت کی رٹ بحال ہوگئی۔
مولانا فضل اللہ نے افغانستان میں اپنے کچھ ساتھیوں کو اکھٹا کیا اور سرحد پار سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کردیے، جسے حکام ایک بڑے سیکیورٹی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مولانا فضل اللہ کی قیادت میں طالبان نے وادی سوات میں لڑکیوں کے سینکڑوں اسکول تباہ کردیے اورخواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی لگاتے ہوئے ان کا گھروں سے نکلنا بند کردیا۔
یہی وہ وقت تھا جب ملالہ یوسف زئی نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھائی اور اسے دنیا بھر میں لڑکیوں کی پڑھائی کی ایک علمبردار کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
حکام کا کہناہے کہ مولانا فضل اللہ اپنی گمنامی سے خوف زدہ تھا اور اس نے دوبارہ خبروں میں آنے کے لیے ملالہ یوسف زئی کو ایک اہم ہدف کے طور پر چنا اور عطااللہ کوحکم دیاکہ وہ اسے ہلاک کردے۔
پولیس اور سیکیورٹی عہدے داروں کا کہناہے کہ ملالہ پر حملے کے بعد درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں ملالہ کے سکول کے چار اہل کار بھی شامل تھے ۔ لیکن بعد میں عدم ثبوت کی بنا پر دو اہل کاروں کو چھوڑ دیا گیا۔
ملالہ پر حملے کے بعد پاکستان بھر میں طالبان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہاہے ، لیکن کچھ دینی گروپ اور حزب اختلاف کی جماعتیں اس واقعہ کو شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کا جواز فراہم کرنے کی امریکی سازش قرار دے رہی ہیں۔
ناقدین کا کہناہے کہ سوات سے طالبان کو باہر نکالنے کے لیے کیا جانے والا فوجی آپریشن انسداد دہشت گردی کی ایک نمایاں اور اہم مثال تھی ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت فوجی کامیابیوں کے ثمرات کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے مقامی آبادی کو روزگار فراہم کرتی ، تاکہ دوبارہ اپنے پاؤں جمانے کا موقع نہ ملتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے دوسینیئر پاکستانی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ 14 سالہ ملالہ پر حملے کی منصوبہ بندی عطااللہ نامی ایک عسکریت پسند نے کی تھی اور جن دوافراد نے اسکول کی ویگن روک کر ملالہ کے سرپر گولی ماری تھی ، ان میں سے ایک عطااللہ تھا۔
عطااللہ کی عمر 30 سال کے لگ بھگ ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ حملے کے بعد وہ ہمسایہ ملک افغانستان فرار ہوچکاہے۔
عہدے داروں کا کہناہے کہ اس نے ملالہ پر حملے کا منصوبہ طالبان کے ایک مفرور کمانڈر مولانا فضل اللہ کے حکم پربنایا تھا۔
ناقدین کا کہناہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو سزائیں دینے کی شرح انتہائی کم ہے ۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے الزام میں جن لوگوں کو پکڑتی ہیں ، ان کی اکثریت کو عدالتیں رہا کردیتی ہیں۔ جس سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کو خطے میں پنپنے اور پھیلنے کا موقع مل رہاہے۔
طالبان کے ایک ترجمان نے، جس کے سرقیمت پاکستان کی حکومت نے 10 کروڑ روپے مقرر کردی ہے، میڈیا کو اپنی ایک ٹیلی فون کال میں کہاتھا کہ ملالہ پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ طالبان کو برابھلا کہتی تھی اور امریکی صدر براک اوباما کی تعریف کرتی تھی۔
پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وادی سوات سے فوجی کارروائی کے ذریعے طالبان کو باہر نکالنے کے بعد 2009ء میں سیکیورٹی فورسز نے عطااللہ کو گرفتار کیا تھا۔ وہ تین مہینے تک سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہا مگر اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا، جس کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا گیا۔
ایک اور سیکیورٹی عہدےدار نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ حکام نے وادی سوات میں عطااللہ کے گھر پر چھاپہ مارنے کے بعد اس کے متعلق کافی معلومات اکھٹی کی ہیں۔
عہدے دار کا کہناہے کہ عطااللہ کی تلاش جاری ہے لیکن اگر وہ افغانستان فرار ہوچکا ہے تو اسے وہاں سے پکڑنا بہت مشکل ہوگا۔
عہدے داروں کو کہناہے کہ حکام ملالہ پر حملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے دوسرے طریقے استعمال کررہے ہیں۔ اس کی والدہ اور دوبھائیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے تا کہ عطااللہ کو مجبور کیاجاسکے کہ وہ خود کو حکام کے حوالے کردے۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ عطااللہ کے دو اور قریبی رشتے داروں کو بھی پکڑا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اسے سوات سے فرار ہونے میں مدد دی تھی، اور ملالہ پر حملے کے بعد اس نے ایک رات ان کے ہاں گذاری تھی۔
ایک اور عہدے دار نے بتایا کہ عطااللہ کو جب 2009 میں پکڑا گیاتھا تو اس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ کٹڑ طالبان نہیں ہے ، صرف ان کے نظریات سے متاثر ہے۔
سوات پر طالبان کے غلبے کے دوران ان کا کمانڈر مولانا فضل اللہ تھا ، جو فوجی کارروائی کے بعد اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ افغانستان کی جانب فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ فوجی کارروائی سے سوات میں اس کی طاقت کا شیرازہ بکھر گیا اور وہاں حکومت کی رٹ بحال ہوگئی۔
مولانا فضل اللہ نے افغانستان میں اپنے کچھ ساتھیوں کو اکھٹا کیا اور سرحد پار سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کردیے، جسے حکام ایک بڑے سیکیورٹی خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مولانا فضل اللہ کی قیادت میں طالبان نے وادی سوات میں لڑکیوں کے سینکڑوں اسکول تباہ کردیے اورخواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی لگاتے ہوئے ان کا گھروں سے نکلنا بند کردیا۔
یہی وہ وقت تھا جب ملالہ یوسف زئی نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھائی اور اسے دنیا بھر میں لڑکیوں کی پڑھائی کی ایک علمبردار کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
حکام کا کہناہے کہ مولانا فضل اللہ اپنی گمنامی سے خوف زدہ تھا اور اس نے دوبارہ خبروں میں آنے کے لیے ملالہ یوسف زئی کو ایک اہم ہدف کے طور پر چنا اور عطااللہ کوحکم دیاکہ وہ اسے ہلاک کردے۔
پولیس اور سیکیورٹی عہدے داروں کا کہناہے کہ ملالہ پر حملے کے بعد درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں ملالہ کے سکول کے چار اہل کار بھی شامل تھے ۔ لیکن بعد میں عدم ثبوت کی بنا پر دو اہل کاروں کو چھوڑ دیا گیا۔
ملالہ پر حملے کے بعد پاکستان بھر میں طالبان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہاہے ، لیکن کچھ دینی گروپ اور حزب اختلاف کی جماعتیں اس واقعہ کو شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کا جواز فراہم کرنے کی امریکی سازش قرار دے رہی ہیں۔
ناقدین کا کہناہے کہ سوات سے طالبان کو باہر نکالنے کے لیے کیا جانے والا فوجی آپریشن انسداد دہشت گردی کی ایک نمایاں اور اہم مثال تھی ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومت فوجی کامیابیوں کے ثمرات کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے مقامی آبادی کو روزگار فراہم کرتی ، تاکہ دوبارہ اپنے پاؤں جمانے کا موقع نہ ملتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔