رسائی کے لنکس

چین بھارت جنگ کی پچاسویں برسی، شکوک وشہبات برقرار


بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور چین کے وزیر اعظم وین جیاپاؤ
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور چین کے وزیر اعظم وین جیاپاؤ

دونوں فریق ایک دوسرے پر اس لیے بھی بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ دونوں ابھرتی ہوئی حریف طاقتیں ایشیا اور اس کے وسائل پر اپنا زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ قائم کرنا چاہتی ہیں۔

پچاس سال پہلے ہمالیائی خطے میں مختصر جنگ لڑنے والے دوبڑے ایشیائی ممالک چین اور بھارت عشروں کی دشمنی ایک جانب رکھ کر اپنی توانائیاں تجارت پر صرف کررہے ہیں۔ لیکن کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی دوطرفہ تجارت کے باوجود بھارت میں بہت سے لوگ چین کو اپنے لیے پاکستان سے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

نئی دہلی میں زیادہ تر حکام کا دھیان 1962ء میں ہمالیہ کے علاقے میں چین سے جنگ کی برسی کی جانب نہیں گیا۔ 50 سال قبل چین کے ہاتھوں بھارت کی شکست کو نظر انداز کیا جانا شاید حیرت کی بات نہیں ہے۔

لیکن ایک کانفرنس کے موقع پر سائیڈ لائن ملاقات میں بھارت کے وزیر دفاع نے کہا ہےکہ اب ان کے ملک کی فوجی قوت 1962 جیسی نہیں ہے اور اس کی فوج بھارت کے چپے چپے کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ وزیر دفاع کا یہ بیان اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ بھارت کے اپنے ایشیائی ہمسائے کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر1962 کی جنگ کا سایہ اب بھی لہرا رہا ہے ، باوجودیکہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات مسلسل ترقی کررہی ہے۔

الکا اچاریہ نئی دہلی کے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں چینی امور کے پروفیسر ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یقینی طورپر اس جنگ کے نفسیاتی اثرات موجود ہیں اور یقنناً بڑے پیمانے پر ہیں ، لیکن وہ دوطرفہ تعلقات میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہے۔ اگرچہ پورے ماضی کو بھلایا نہیں جاسکا ہے ، لیکن خاص طورپر گذشتہ عشرے کے دوران تعلقات بڑھانے کی کافی کوششیں کی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں اور تنازعات کو ایک جانب رکھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔

دونوں ممالک نے اپنے سیاسی تعلقات کو بہتر بنانے میں کافی تیزی دکھائی ہے اور ان کے معاشی رشتے پھل پھول رہے ہیں۔ چین اس وقت دو طرفہ تجارت میں بھارت کا سب سے بڑا شراکت دار ہے اور اس تجارت کا حجم 75 ارب ڈالر تک پہنچ چکاہے۔

لیکن دوسری جانب مذاکرات کے باوجود دونوں ممالک کی چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد سے منسلک تنازعات کے حل کی رفتار بہت سست ہے ۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر اس لیے بھی بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ دونوں ابھرتی ہوئی حریف طاقتیں ایشیا اور اس کے وسائل پر اپنا زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ قائم کرنا چاہتی ہیں۔

نئی دہلی میں قائم سوسائٹی فار پالیسی اسٹڈیز کے ایک تجزیہ کار اودھے بھاسکر کہتے ہیں کہ چین کی حیثیت بھارت کے لیے بدستور ایک حریف کی سی رہے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ میں اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کرسکتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں اندرون خانہ کڑوا پن اور شہبات موجود رہیں گے۔ اور بھارت کے اندر یہ گہرا احساس قائم رہے گا کہ چین بھارتی کی ترقی سے خوش نہیں ہے اور وہ اس کا راستہ روکنا چاہتاہے۔ بھارت کو زیادہ پریشانی پاکستان کے ساتھ چین کے سٹرٹیجک تعاون پر ہے خاص طورپر جوہری ہتھیاروں اور میزائل پروگرام کے حوالے سے۔ اس طریقے سے چین بھارت کو محدود کرنا چاہتا ہے یا پاکستان جیسی کسی تیسری پارٹی کی اس انداز میں حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو بھارت کے بنیادی مفادات کے خلاف ہو۔

تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے فوجی سازو سامان پر بھاری اخراجات کا مقصد خود کو پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے مقابلے کے لیے بھی تیار کرنا ہے۔ نئی دہلی ارونچل پردیش میں بھی اپنے فوجی ڈھانچے کو بڑھانے پر توجہ دے رہاہے جو ایک ایسی مشرقی ریاست ہے جس کا چین دعویدار ہے اور جہاں دونوں ملکوں کے درمیان 1962 کی جنگ لڑی گئی تھی۔ بھارت فوجیوں کی تیزتر نقل وحرکت کے لیے ایک بڑی شاہراہ بنارہاہے اور اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے فوج کے چار نئے ڈویژن کھڑے کررہاہے۔

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کی متنازعہ سرحد پرامکانی طور پر امن قائم رہے گا، کیونکہ دونوں ملک ، جن کی آبادیاں ایک ارب نفوس سے زیادہ ہیں اور وہ عالمی منظر نامے پر ایک بڑا کردار ادا کرنے کے لیے اپنی توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

بھارتی عہدے داروں کو یہ بھی توقع ہے کہ ایک دوسرے کو کاٹے بغیر دونوں ممالک کے لیے ایشیا میں پھلنے پھولنے کی کافی گنجائش موجود ہے۔
XS
SM
MD
LG