چین کی جانب سے جنوبی بحیرہ چین کے جزائر اور آس پاس کے پانیوں پر اپنی ملکیت کے دعوے کےبعد بھارت نے کہاہے کہ وہ اس علاقے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔
بھارت اگرچہ جنوبی بحیرہ چین کے تنازع کا براہ راست حصہ نہیں ہے، لیکن وہ ان پانیوں میں، جس کا چین دعویدار ہے، قدرتی گیس کی تلاش کا کام کررہاہے۔
بھارت کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ڈی کے جوشی نے کہا ہے کہ ان کا ملک جنوبی بحیرہ چین کے پانیوں اور وہاں اپنے مفادات کے تحفظ سے پچھلے نہیں ہٹے گا۔
جوشی نے پیر کے روز کہا کہ اگرچہ بھارت جنوبی بحیرہ چین کی علاقائی حدود کی ملکیت کا دعویدار نہیں ہے ، لیکن اگر ضروری ہوا تو وہ وہاں اپنے بحری جہاز بھیج سکتا ہے۔
تیل اور قدرتی گیس سے متعلق بھارت کی سرکاری کمپنی اواین جی سی کے مذکورہ سمندر کے اس حصے سے مفادات وابستہ ہیں جس کے بارے میں ویت نام کا کہناہے کہ وہ اس کے اقتصادی زون میں شامل ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر بھارت نے جنوبی بحیرہ چین میں تیل سے منسلک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی نیوی کو بھیجا تو اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی کا کہناتھا کہ وہاں کے جزائراور ان کے آس پاس کی سمندری حدود چین کی مسلمہ حدود میں شامل ہیں۔
ان کا کہناہے کہ متعلقہ ممالک چین کے حقوق کا احترام کریں گے۔
ماضی میں بھارت جنوبی بحیرہ چین کے بڑھتے ہوئے تنازع میں زیادہ تر خاموش رہاہے ۔ لیکن بھارتی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بھارت گیس کی تلاش کے ویت نامی منصوبے میں شامل ہونے کے بعد اس تنازع کا حصہ بن گیا ہے۔
بھارتی عہدے داروں کاکہناہے کہ جنوبی بحیرہ چین کا علاقہ اس کی توانائی کی ضرورتوں کے تناظر میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی نصف کےلگ بھگ درآمدات اور برآمدات اسی سمندر کی آبی گذر گاہوں کے ذریعے ہوتی ہیں اور نئی دہلی کاکہناہے کہ وہ بین الاقوامی بحری جہازوں کا تحفظ اور سیکیورٹی یقینی بنانا چاہتا ہے۔
کئی بھارتی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہناہے کہ اگر چین اپنے ہمسایہ ممالک مثلاً پاکستان اور سری لنکا کے ساتھ بحرہند میں بحری تعاون کاحق رکھتا ہے تو جنوبی بحیرہ چین میں اسی طرح کا حق بھارت بھی رکھتا ہے۔
بھارت اگرچہ جنوبی بحیرہ چین کے تنازع کا براہ راست حصہ نہیں ہے، لیکن وہ ان پانیوں میں، جس کا چین دعویدار ہے، قدرتی گیس کی تلاش کا کام کررہاہے۔
بھارت کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ڈی کے جوشی نے کہا ہے کہ ان کا ملک جنوبی بحیرہ چین کے پانیوں اور وہاں اپنے مفادات کے تحفظ سے پچھلے نہیں ہٹے گا۔
جوشی نے پیر کے روز کہا کہ اگرچہ بھارت جنوبی بحیرہ چین کی علاقائی حدود کی ملکیت کا دعویدار نہیں ہے ، لیکن اگر ضروری ہوا تو وہ وہاں اپنے بحری جہاز بھیج سکتا ہے۔
تیل اور قدرتی گیس سے متعلق بھارت کی سرکاری کمپنی اواین جی سی کے مذکورہ سمندر کے اس حصے سے مفادات وابستہ ہیں جس کے بارے میں ویت نام کا کہناہے کہ وہ اس کے اقتصادی زون میں شامل ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر بھارت نے جنوبی بحیرہ چین میں تیل سے منسلک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی نیوی کو بھیجا تو اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی کا کہناتھا کہ وہاں کے جزائراور ان کے آس پاس کی سمندری حدود چین کی مسلمہ حدود میں شامل ہیں۔
ان کا کہناہے کہ متعلقہ ممالک چین کے حقوق کا احترام کریں گے۔
ماضی میں بھارت جنوبی بحیرہ چین کے بڑھتے ہوئے تنازع میں زیادہ تر خاموش رہاہے ۔ لیکن بھارتی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بھارت گیس کی تلاش کے ویت نامی منصوبے میں شامل ہونے کے بعد اس تنازع کا حصہ بن گیا ہے۔
بھارتی عہدے داروں کاکہناہے کہ جنوبی بحیرہ چین کا علاقہ اس کی توانائی کی ضرورتوں کے تناظر میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی نصف کےلگ بھگ درآمدات اور برآمدات اسی سمندر کی آبی گذر گاہوں کے ذریعے ہوتی ہیں اور نئی دہلی کاکہناہے کہ وہ بین الاقوامی بحری جہازوں کا تحفظ اور سیکیورٹی یقینی بنانا چاہتا ہے۔
کئی بھارتی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہناہے کہ اگر چین اپنے ہمسایہ ممالک مثلاً پاکستان اور سری لنکا کے ساتھ بحرہند میں بحری تعاون کاحق رکھتا ہے تو جنوبی بحیرہ چین میں اسی طرح کا حق بھارت بھی رکھتا ہے۔