رسائی کے لنکس

پکتیکا میں پاکستانی فوج کی کارروائی کا جواب دیں گے: طالبان حکومت


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • پکتیکا میں پاکستان کے فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں: ترجمان طالبان حکومت
  • پاکستان نے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں چار علاقوں کو نشانہ بنایا: ذبیح اللہ مجاہد
  • پاکستانی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کارروائی میں اہم کمانڈروں سمیت 42 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
  • 'امارات اسلامی' اس گھناؤنے فعل کو نظر انداز نہیں کرے گی بلکہ وہ اپنی سرزمین اور خود مختاری کا دفاع کرنا اپنا حق سمجھتی ہے: طالبان وزارتِ دفاع

ویب ڈیسک افغانستان میں طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ صوبہ پکتیکا میں پاکستان کے فضائی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 46 ہو گئی ہے۔ طالبان کی وزارتِ دفاع نے حملے کا جواب دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا ہے کہ پاکستان نے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل کے چار علاقوں میں کارروائی کی۔

ان کے بقول "مرنے والوں کی تعداد 46 ہے جس میں سے زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔"

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ کارروائی میں بچوں سمیت چھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق جہاں افغان حکام اس کارروائی میں 46 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر رہے ہیں وہیں پاکستانی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کارروائی میں اہم کمانڈروں سمیت 42 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔

منگل کو پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع نے پکتیکا میں چار مقامات پر بمباری کی تصدیق کی تھی۔ اگرچہ حکومتِ پاکستان یا فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے اس حملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ لیکن سرکاری ذرائع کے مطابق یہ عسکریت پسند سرحد پار سے پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھے۔

دوسری جانب طالبان کی وزارتِ دفاع نے منگل کو رات گئے جاری بیان میں فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'وحشیانہ' اور 'واضح جارحیت' قرار دیا۔

بیان میں کہا گیا کہ 'امارات اسلامی' اس گھناؤنے فعل کو نظر انداز نہیں کرے گی بلکہ وہ اپنی سرزمین اور خود مختاری کا دفاع کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔

منگل کو ہونے والے حملوں پر برمل کے ایک رہائشی ملیل نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اس کارروائی میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد ہلاک ہوئے۔ ان کے بقول دو یا تین گھروں پر بمباری کی گئی جن میں سے ایک گھر میں پورا خاندان جن میں 18 لوگ شامل تھے ہلاک ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ حملے میں دوسرے گھر میں تین افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے جنہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ مارے جانے والوں میں مقامی رہائشی اور وزیرستان سے سرحد پار کر کے افغانستان آنے والے افراد شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستانی علاقے شمالی وزیرستان کی سرحد افغان صوبے پکتیکا سے ملتی ہے۔ یہ علاقہ طویل عرصے سے عسکریت پسندی کا گڑھ رہا ہے اور نائن الیون کے بعد یہاں امریکی ڈرون حملے اور پاکستانی فوج کی کارروائی طویل عرصے تک جاری رہی تھیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان فوج نے فضائیہ کی مدد سے یہ کارروائی کی ہے۔ یہ کارروائی ایسے وقت کی گئی جب وزیرِ اعظم پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق خان ایک اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ کابل میں تھے اور انہوں نے طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں سے بات چیت کی تھی۔

افغانستان کے شہر خوست سے تعلق رکھتے والے ایک صحافی نے نامعلوم مقام سے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس کارروائی میں جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے دوران نقل مکانی کرنے والوں کی خیمہ بستی کو نشانہ بنایا گیا۔

ان کے بقول کارروائی میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ 18 سے 20 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جن میں ایک خاندان کے پندرہ افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ہلاک ہوئے ہیں۔

انہوں نے پاکستان کے سرکاری ذرائع کے ان دعوؤں سے اتفاق نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی میں ابو حمزی، قاری شیر زمان اور دیگر اہم کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا۔

ادھر ٹی ٹی پی کے ذرائع نے پاکستانی ذرائع کے اس دعوے کی بھی تردید کی جس میں کہا گیا تھا کہ عمر میڈیا کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔

ٹی ٹی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمر میڈیا کا کوئی مرکزی دفتر نہیں ہے بلکہ اس سے منسلک افراد مختلف علاقوں میں کام کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کارروائی میں کمانڈر اختر محمد خلیل اور کمانڈر حمزہ کے بارے میں دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا۔

یہ کارروائی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب گزشتہ ہفتے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے افغان سرحد کے قریب پاکستان فوج کی فوجی چیک پوسٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں پاکستانی حکام کے مطابق 16 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

افغانستان میں 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کے مغربی سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسلام آباد کا الزام ہے کہ کابل کے طالبان حکام عسکریت پسندوں کو پناہ دینے اور افغان سر زمین کو پاکستان پر حملے کے لیے استعمال ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔

طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے افغان سرزمین سے بیرونی عسکریت پسند گروہوں کو نکالنے کا عزم کرتی رہی ہے۔

جولائی میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق ساڑھے چھ ہزار ٹی ٹی پی جنگجو افغانستان میں موجود ہیں اور "طالبان ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ تصور نہیں کرتے۔"

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG