واشنگٹن —
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے گذشتہ دو دِنوں کے دوران عراق میں دہشت گردی کے الزامات پر کم از کم 42 افراد کو پھانسی دیے جانے کے معاملے کی مذمت کرتے ہوئے، حکومتِ عراق سے پھانسی کے اقدام کو بند کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے دفتر سے’ وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ، لیزا شلائین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اِس ہفتے عراق میں دہشت گردی کے الزامات پر 42 قیدیوں کو پھانسی دی گئی، جِس پر ایک بیان میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر، ناوی پلئے نے کہا ہے کہ عراق کے انصاف کے نظام میں شدید نقائص موجود ہیں، جِن فیصلوں کی بنیاد پر پھانسی دینا مناسب نہ ہوگا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اِس ہفتے دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کے بعد، اِس سال عراق میں اِن انتہائی درجے کی سزاؤں کی کُل تعداد 140 ہوگئی ہے، جِس کے مقابلے میں، 2012ء میں دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کی تعداد 129 تھی۔
پلئے کے ترجمان، رَپرٹ کول ویل نے کہا ہے کہ یہ امر قابلِ تشویش ہے کہ عراقی عدالتیں ایک ہی ساتھ پھانسی کی درجنوں سزاؤں کے احکامات صادر کرتی ہیں۔
عراق کی وزارتِ انصاف نے جمعرات کو بتایا کہ اِس ہفتے 42قیدیوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، جِن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ اور یہ کہ یہ مجرم دہشت گردی کے جرائم میں ملوث تھے، ’جِنھوں نے درجنوں معصوم لوگوں کی جانیں لی تھیں، علاوہ دیگر جرائم کے جِن کا مقصد ملک کو غیر مستحکم کرنا، خوف کا ماحول پیدا کرنا اور افرا تفری پھیلانا تھا‘۔
کول ویل نے’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ عالمی ادارے کےحقوقِ انسانی سے تعلق رکھنے والے حکام نےسخت سزائیں دیے جانے پر حکومتِ عراق کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔
کول ویل کے بقول، خیال کیا جاتا ہے کہ عراق میں اس وقت لگ بھگ 900 افراد پھانسی کی باری کا انتظار کر رہے ہیں، اور یہ کہ پلئے نے عراقی اہل کاروں پر اِن سزاؤں پر نظر ثانی اور اِنھیں گھٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے دفتر سے’ وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ، لیزا شلائین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اِس ہفتے عراق میں دہشت گردی کے الزامات پر 42 قیدیوں کو پھانسی دی گئی، جِس پر ایک بیان میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر، ناوی پلئے نے کہا ہے کہ عراق کے انصاف کے نظام میں شدید نقائص موجود ہیں، جِن فیصلوں کی بنیاد پر پھانسی دینا مناسب نہ ہوگا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اِس ہفتے دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کے بعد، اِس سال عراق میں اِن انتہائی درجے کی سزاؤں کی کُل تعداد 140 ہوگئی ہے، جِس کے مقابلے میں، 2012ء میں دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کی تعداد 129 تھی۔
پلئے کے ترجمان، رَپرٹ کول ویل نے کہا ہے کہ یہ امر قابلِ تشویش ہے کہ عراقی عدالتیں ایک ہی ساتھ پھانسی کی درجنوں سزاؤں کے احکامات صادر کرتی ہیں۔
عراق کی وزارتِ انصاف نے جمعرات کو بتایا کہ اِس ہفتے 42قیدیوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، جِن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ اور یہ کہ یہ مجرم دہشت گردی کے جرائم میں ملوث تھے، ’جِنھوں نے درجنوں معصوم لوگوں کی جانیں لی تھیں، علاوہ دیگر جرائم کے جِن کا مقصد ملک کو غیر مستحکم کرنا، خوف کا ماحول پیدا کرنا اور افرا تفری پھیلانا تھا‘۔
کول ویل نے’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ عالمی ادارے کےحقوقِ انسانی سے تعلق رکھنے والے حکام نےسخت سزائیں دیے جانے پر حکومتِ عراق کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔
کول ویل کے بقول، خیال کیا جاتا ہے کہ عراق میں اس وقت لگ بھگ 900 افراد پھانسی کی باری کا انتظار کر رہے ہیں، اور یہ کہ پلئے نے عراقی اہل کاروں پر اِن سزاؤں پر نظر ثانی اور اِنھیں گھٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔