لندن —
پچیس برس پرانی بات ہے جب ورلڈ وائیڈ ویب جو سادہ زبان میں ’www‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، تخلیق کیا گیا تھا اور آج اس نے ہماری دنیا کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔
12 مارچ 2014 کو ورلڈ وائیڈ ویب اپنی سلور جوبلی منائی اسی روز 34 سالہ برطانوی کمپیوٹر سائنسدان سر ٹم برنرس لی نے ایک تکنیکی پرچہ لکھا جس کا عنوان انفارمیشن مینجمنٹ: اے پرپوزل تھا۔
ان دنوں بابائے ورلڈ وائیڈ ویب ٹم برنرس لی یورپ کی مشترکہ جوہری تجربہ گاہ 'سرن ' میں سافٹ وئیر انجینئر کے طور پرکام کر رہے تھےجہاں دنیا بھر سے آنے والے سائنسدان تحقیقی عمل میں شامل ہوا کرتے تھے۔
ٹم برنرس لی نے اپنا پرچہ ساتھیوں میں بھی تقسیم کیا کیونکہ انھیں اندازا ہو گیا تھا کہ تجربہ گاہ میں معلومات کو منظم رکھنے اور مشترکہ رابطے کے طریقہ کار میں بڑی خرابی موجود ہے اسی لیے انھوں نے ہائیرٹیکسٹ کے نظام کے ذریعے دستاویزات کو منسلک کرنے کا ایک طریقہ تجویز کیا تاکہ اس ڈیٹا بیس کی مدد سے دنیا بھر کے سائنسدان تیزی سے معلومات کا تبادلہ کر سکیں۔ یہی خیال آگے چل کر ورلڈ وائیڈ ویب کی تخلیق کی بنیاد بنا ۔
اس تجویز کو انھوں نے اپنے باس مائیک سینڈل کے سامنے پیش کیا جنھوں نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’تجویز مبہم ہے لیکن دلچسپ ضرور ہے۔‘‘
ساتھ ہی ا نھوں نے ٹم برنرس لی سے نیا کمپیوٹر خریدنے کا وعدہ بھی کیا۔ اگرچہ ،ان کی تجویز قبول نہیں کی گئی لیکن سر ٹم برنرس لی نے ہار نہیں مانی اور اگلے ہی برس انھوں نے وہ سافٹ وئیر تشکیل دیا جو صارفین کو انٹرنیٹ پر موجود معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے اور بعد میں یہی مشین کمپیوٹردنیا کا پہلا ویب سرور بن گئی اور برنرس لی نے پہلی ویب سائٹ کی تشکیل کے لیے اس کا استعمال کیا ۔
اس تاریخی مشین پر ثبوت کے طور پر یہ آج بھی اسٹیکر موجود ہے کہ ’یہ مشین ایک سرور ہے اسے آن نا کیا جائے۔‘
1990 میں اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا گیا جو کہ 1991 میں سرن کی تجربہ گاہ میں استعمال ہونے لگا اس دوران مختلف ماہرین کی آراء اور مشورے سے اس پروگرام کو بہتر بنایا گیا۔ سر ٹم کی طرف سے ویب کے صفحات پر استعمال کی جانے والی اصطلاحات HTTP، URLs ، HTML بہت جلد ہی دیگر سائنسدانوں میں عام ہو گئیں جنھیں آج بھی مقبولیت حاصل ہے۔
1955 میں لندن میں پیدا ہونے والے ورلڈ وائیڈ ویب کے موجد ٹم برنرس لی نے ویب کے صفحات کے لیے ورلڈ وائیڈ ویب www لکھا جسے ابتدائی طور پر 'میش ' کہا جاتا تھا انیس سو تیرانوے کے بعد سرن کی جانب سے تمام لوگوں کے لیے یہ ٹیکنالوجی آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور چند سالوں کے اندر اندر دنیا بھر کے لاکھوں لوگ معلومات تک رسائی کے لیے ویب کے ساتھ جڑ گئے۔
تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یورپ کی جدید ترین سرن تجربہ گاہ میں ٹم برنرس لی اوران کے ساتھی رابرٹ کائیلونے ویب کے ابتدائی دور میں بہت اہم کردار ادا کیا تاہم اس دور کی فائلیں محفوظ نہیں رکھی جا سکی ہیں اور ویب جونکہ انٹرنیٹ پر نہیں تھا اس لیے سر ٹم نے تمام فائیلیں اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر رکھی تھیں اسی لیے وہ اپنا کمپیوٹر اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر باآسانی ویب کے ذریعے معلومات فراہم کر سکیں ۔
دسمبر 2003 میں سر ٹم برنرس لی کی خدمات کے اعتراف میں ملکہ برطانیہ کی جانب سے ’نائٹ ہڈ‘ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا ۔ انھوں نے ویب کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جبکہ ، بابائے ورلڈ وائیڈ ویب سر ٹم کودنیا بھر میں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا ہے ۔
12 مارچ 2014 کو ورلڈ وائیڈ ویب اپنی سلور جوبلی منائی اسی روز 34 سالہ برطانوی کمپیوٹر سائنسدان سر ٹم برنرس لی نے ایک تکنیکی پرچہ لکھا جس کا عنوان انفارمیشن مینجمنٹ: اے پرپوزل تھا۔
ان دنوں بابائے ورلڈ وائیڈ ویب ٹم برنرس لی یورپ کی مشترکہ جوہری تجربہ گاہ 'سرن ' میں سافٹ وئیر انجینئر کے طور پرکام کر رہے تھےجہاں دنیا بھر سے آنے والے سائنسدان تحقیقی عمل میں شامل ہوا کرتے تھے۔
ٹم برنرس لی نے اپنا پرچہ ساتھیوں میں بھی تقسیم کیا کیونکہ انھیں اندازا ہو گیا تھا کہ تجربہ گاہ میں معلومات کو منظم رکھنے اور مشترکہ رابطے کے طریقہ کار میں بڑی خرابی موجود ہے اسی لیے انھوں نے ہائیرٹیکسٹ کے نظام کے ذریعے دستاویزات کو منسلک کرنے کا ایک طریقہ تجویز کیا تاکہ اس ڈیٹا بیس کی مدد سے دنیا بھر کے سائنسدان تیزی سے معلومات کا تبادلہ کر سکیں۔ یہی خیال آگے چل کر ورلڈ وائیڈ ویب کی تخلیق کی بنیاد بنا ۔
اس تجویز کو انھوں نے اپنے باس مائیک سینڈل کے سامنے پیش کیا جنھوں نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’تجویز مبہم ہے لیکن دلچسپ ضرور ہے۔‘‘
ساتھ ہی ا نھوں نے ٹم برنرس لی سے نیا کمپیوٹر خریدنے کا وعدہ بھی کیا۔ اگرچہ ،ان کی تجویز قبول نہیں کی گئی لیکن سر ٹم برنرس لی نے ہار نہیں مانی اور اگلے ہی برس انھوں نے وہ سافٹ وئیر تشکیل دیا جو صارفین کو انٹرنیٹ پر موجود معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے اور بعد میں یہی مشین کمپیوٹردنیا کا پہلا ویب سرور بن گئی اور برنرس لی نے پہلی ویب سائٹ کی تشکیل کے لیے اس کا استعمال کیا ۔
اس تاریخی مشین پر ثبوت کے طور پر یہ آج بھی اسٹیکر موجود ہے کہ ’یہ مشین ایک سرور ہے اسے آن نا کیا جائے۔‘
1990 میں اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا گیا جو کہ 1991 میں سرن کی تجربہ گاہ میں استعمال ہونے لگا اس دوران مختلف ماہرین کی آراء اور مشورے سے اس پروگرام کو بہتر بنایا گیا۔ سر ٹم کی طرف سے ویب کے صفحات پر استعمال کی جانے والی اصطلاحات HTTP، URLs ، HTML بہت جلد ہی دیگر سائنسدانوں میں عام ہو گئیں جنھیں آج بھی مقبولیت حاصل ہے۔
1955 میں لندن میں پیدا ہونے والے ورلڈ وائیڈ ویب کے موجد ٹم برنرس لی نے ویب کے صفحات کے لیے ورلڈ وائیڈ ویب www لکھا جسے ابتدائی طور پر 'میش ' کہا جاتا تھا انیس سو تیرانوے کے بعد سرن کی جانب سے تمام لوگوں کے لیے یہ ٹیکنالوجی آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور چند سالوں کے اندر اندر دنیا بھر کے لاکھوں لوگ معلومات تک رسائی کے لیے ویب کے ساتھ جڑ گئے۔
تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یورپ کی جدید ترین سرن تجربہ گاہ میں ٹم برنرس لی اوران کے ساتھی رابرٹ کائیلونے ویب کے ابتدائی دور میں بہت اہم کردار ادا کیا تاہم اس دور کی فائلیں محفوظ نہیں رکھی جا سکی ہیں اور ویب جونکہ انٹرنیٹ پر نہیں تھا اس لیے سر ٹم نے تمام فائیلیں اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر رکھی تھیں اسی لیے وہ اپنا کمپیوٹر اٹھائے اٹھائے پھرتے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر باآسانی ویب کے ذریعے معلومات فراہم کر سکیں ۔
دسمبر 2003 میں سر ٹم برنرس لی کی خدمات کے اعتراف میں ملکہ برطانیہ کی جانب سے ’نائٹ ہڈ‘ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا ۔ انھوں نے ویب کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جبکہ ، بابائے ورلڈ وائیڈ ویب سر ٹم کودنیا بھر میں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا ہے ۔