واشنگٹن —
دنیا بھر میں ہر سال 55 لاکھ نوزائیدہ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ طبی جریدے ’دی لینسیٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔
تحقیق دانوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں سے اکثریت کو بچانا ممکن تھا۔
اس تحقیق کی سربراہی جوئے لان کر رہی تھیں، جن کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مندرجات نوزائیدہ بچوں کی اموات کے حوالے سے بہت حد تک درست اعداد و شمار کی غمازی کرتے ہیں۔
جوئے لان کے الفاظ: ’ہر سال 29 لاکھ نوزائیدہ بچے اپنی عمر کے پہلے ہی مہینے میں، جبکہ تقریباً 10 لاکھ بچے ایسے ہیں جو اپنی پہلی سالگرہ پر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ 26 لاکھ مردہ حالت میں جنم لیتے ہیں، جبکہ حیران کُن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں12 لاکھ بچے دوران ِزچگی فوت ہو جاتے ہیں‘۔
رپورٹ کے مطابق، نوزائیدہ بچوں کی زیادہ تر اموات کم یا اوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں، مگر امیر ممالک میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔ امریکہ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔
جوئے لان کہتی ہیں کہ، ’دنیا بھر میں پیدائش کے وقت پیچیدگیوں یا پھر وقت سے پہلے پیدائش کے تین بنیادی اسباب ہیں۔ جب خاتون کو زچگی کے دوران مناسب دیکھ بھال نہ ملے اور وہ بچے جو اپنے وقت پر ہی پیدا ہوتے ہیں، مگر نامناسب دیکھ بھال کے باعث، ہلاک ہو جاتے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات کا تیسرا بڑا سبب انفیکشنز بھی ہے‘۔
جوئے لان لندن سکول آف ہائی جین اور ٹراپیکل میڈیسن سے منسلک ہیں اور برطانیہ میں بچوں سے متعلق تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ میں مشیر کے فرائض بھی سر انجام دے رہی ہیں۔ جوئے کہتی ہیں کہ محض چند ڈالر کی اعانت سے بہت سے بچوں اور ان کی ماؤں کو بچایا جا سکتا ہے۔
جوئے کے بقول، ’ہمیں اس تحقیق میں یہ معلوم ہوا کہ نوزائیدہ بچوں کی 71 فی صد اموات کو ان طریقوں سے بچانا ممکن تھا جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ گویا، دوسرے الفاظ میں ہر برس 30 لاکھ خواتین اور بچوں کو بچایا جا سکتا ہے، اگر پیدائش کے وقت چند معمولی چیزوں پر تھوڑے سے پیسے خرچ کیے جائیں‘۔
جوئے لان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے انجیکشن بھی موجود ہیں جن سے نوزائیدہ بچے کے بچنے کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔
اس تحقیق میں دنیا بھر کے 17 ممالک کے 28 اداروں سے وابستہ 50 ماہرین نے حصہ لیا۔
تحقیق دانوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں سے اکثریت کو بچانا ممکن تھا۔
اس تحقیق کی سربراہی جوئے لان کر رہی تھیں، جن کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مندرجات نوزائیدہ بچوں کی اموات کے حوالے سے بہت حد تک درست اعداد و شمار کی غمازی کرتے ہیں۔
جوئے لان کے الفاظ: ’ہر سال 29 لاکھ نوزائیدہ بچے اپنی عمر کے پہلے ہی مہینے میں، جبکہ تقریباً 10 لاکھ بچے ایسے ہیں جو اپنی پہلی سالگرہ پر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ 26 لاکھ مردہ حالت میں جنم لیتے ہیں، جبکہ حیران کُن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں12 لاکھ بچے دوران ِزچگی فوت ہو جاتے ہیں‘۔
رپورٹ کے مطابق، نوزائیدہ بچوں کی زیادہ تر اموات کم یا اوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں، مگر امیر ممالک میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔ امریکہ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔
جوئے لان کہتی ہیں کہ، ’دنیا بھر میں پیدائش کے وقت پیچیدگیوں یا پھر وقت سے پہلے پیدائش کے تین بنیادی اسباب ہیں۔ جب خاتون کو زچگی کے دوران مناسب دیکھ بھال نہ ملے اور وہ بچے جو اپنے وقت پر ہی پیدا ہوتے ہیں، مگر نامناسب دیکھ بھال کے باعث، ہلاک ہو جاتے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات کا تیسرا بڑا سبب انفیکشنز بھی ہے‘۔
جوئے لان لندن سکول آف ہائی جین اور ٹراپیکل میڈیسن سے منسلک ہیں اور برطانیہ میں بچوں سے متعلق تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ میں مشیر کے فرائض بھی سر انجام دے رہی ہیں۔ جوئے کہتی ہیں کہ محض چند ڈالر کی اعانت سے بہت سے بچوں اور ان کی ماؤں کو بچایا جا سکتا ہے۔
جوئے کے بقول، ’ہمیں اس تحقیق میں یہ معلوم ہوا کہ نوزائیدہ بچوں کی 71 فی صد اموات کو ان طریقوں سے بچانا ممکن تھا جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ گویا، دوسرے الفاظ میں ہر برس 30 لاکھ خواتین اور بچوں کو بچایا جا سکتا ہے، اگر پیدائش کے وقت چند معمولی چیزوں پر تھوڑے سے پیسے خرچ کیے جائیں‘۔
جوئے لان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے انجیکشن بھی موجود ہیں جن سے نوزائیدہ بچے کے بچنے کے امکانات بہت بڑھ سکتے ہیں۔
اس تحقیق میں دنیا بھر کے 17 ممالک کے 28 اداروں سے وابستہ 50 ماہرین نے حصہ لیا۔