پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ سوئس بینکوں میں منتقل کیے گئے 200 ارب ڈالرز کی ملک میں واپسی کے لیے اگست کے مہینے میں سوئٹزرلینڈ کے عہدیداروں سے بات چیت کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں سوئس حکام سے مذاکرات کے کئی مراحل ہوں گے اور رقم کی پاکستان واپسی میں تین سے چار سال لگ سکتے ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ رقم بظاہر غیر قانونی طور پر ہی سوئس بینکوں میں منتقل کی گئی۔
رانا محمد افضل کا کہنا تھا کہ رقم کی وطن واپسی کے پہلے مرحلے میں پاکستان اور سوئیٹزرلینڈ کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہو گا جس کے تحت سوئس بینکوں میں موجود رقوم سے متعلق دونوں ملک ایک دوسرے کو معلومات فراہم کریں گے۔
’’اب اس عمل کی شروعات ہوں گی، کیوں کہ سوئس حکومت نے اس قسم کے معاہدے کئی اور حکومتوں کے ساتھ بھی کیے ہیں۔ لیکن ابتدائی اجلاس اور معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بارے میں کتنا وقت لگے گا، یہ تو پہلی میٹنگ کے بعد پتہ چلے گا۔‘‘
رانا محمد افضل کا کہنا تھا کہ معلومات کے تبادلے کے معاہدے کے بعد ہی ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی ہو سکے گی جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے رقوم سوئس بینکوں میں منتقل کیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ بعض سوئس حکام کے بیانات کے بعد پاکستان کو یہ معلوم ہوا کہ پاکستانیوں کے لگ بھگ 200 ارب ڈالر وہاں موجود ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی اس رقم کی پاکستان میں منتقلی کے لیے سوئس حکام سے رابطے شروع کر دیئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ معیشت کی بحالی اور اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں حکومت عالمی مالیاتی فنڈ ’آئی ایم ایف‘ اور ورلڈ بینک سے اربوں ڈالر قرض کے حصول کے معاہدے کر چکی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ محصولات بڑھانے کے لیے مزید لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ معشیت کی بنیادوں کو مستحکم کیا جا سکے۔
اقتصادی اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان سوئس بینکوں میں موجود رقوم میں سے کچھ واپس لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ رقم نا صرف ملک میں اقتصادی استحکام کا سبب بنے گی بلکہ اُن لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی جو غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر رقوم منتقل کرتے ہیں۔