ایسا کیوں ہوتا ہےکہ کچھ لوگوں کو مچھر ہر جگہ اپنا نشانہ بنا لیتا ہے جبکہ بعض لوگوں کو مچھر مکمل طور پر نظر انداز کریتا ہے۔
اگرچہ متعدد مطالعوں میں مچھروں کے کاٹنے کی مختلف وجوہات سامنے آئی ہیں تاہم سائنس دانوں کو یقین ہے کہ مچھر ہمارے جسم کی مہک سونگھ کر ہمارے پاس آتا ہے ۔
اب ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے اس جسمانی مہک کی وضاحت کی ہے جس کے ذریعے مچھر اپنے شکار کو منتخب کرتا ہے اور سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ہمارے جسم کی یہ خاص مہک ہمیں وراثت میں ملتی ہے۔
یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ مچھروں کی طرف سے کشش کے لیے جینیاتی طور پر صلاحیت رکھتے ہیں ۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اگر آپ کا خون لذیذ ہے تو مچھروں کے لیے آپ کے خون سے مزاحمت کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ مادہ مچھر دوسرے لوگوں کے مقابلے میں بعض لوگوں کو ترجیح دیتی ہے اور ایسا ہمارے جسم میں بننے والے کیمیکل کی الگ الگ مہک کی وجہ سے ہوتا ہے جس کا پتا مچھر کی قوت شامہ دور سے لگا لیتی ہے۔
لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن سے منسلک پروفیسر مینڈیلا فرنینڈس نے کہا کہ یہ پہلا مطالعہ ہے جس میں جینیاتی بنیادوں پر انسانوں کا مچھروں کے لیے پرکشش یا ناپسندیدہ ہونے کےحوالے سے باضابطہ طور پر ثبوت ملے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ حالیہ مطالعہ جسم کی مہک کے حوالے سے مچھروں کی امتیازی توجہ کو ظاہر کرتا ہے لیکن اس میکانزم کا ابھی مطالعہ ہونا باقی ہے کہ انسانوں سے یہ مہک کیوں ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ مہک کچھ اڑ جانے والے کیمیکل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو جلد کے بیکٹیریا کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے یا پھر ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ یہ مرکبات براہ راست جلد کے خلیات نے پیدا کئے تھے اور ان دونوں صورتوں میں انسانی جسم کی مہک کو جزوی طور پر جینیاتی عوامل کی طرف سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
مطالعے کے لیے محققین نے 18 ہم شکل اور 19 غیر ہم شکل جڑواں بہنوں کے جوڑوں کو شامل کیا اور ان رضا کاروں کو ایک پلاسٹک ٹیوب میں ہاتھ ڈالنے کے لیے کہا گیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ مچھر کونسے ہاتھ کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
لندن اسکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن سے منسلک محققین کی ٹیم نے نتائج اخذ کرتے ہوئے لکھا کہ ہم شکل جڑواں بہنوں کی انفرادی مہک سے مچھروں ک اعلی پسندیدگی کا تعلق ظاہر ہوا جبکہ ان کےمقابلے میں غیر ہم شکل جوڑوں کی مہک سے مچھروں کی کم توجہ کا تعلق ظاہر ہوا ۔
جریدہ 'پلوس ون' میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق نتائج نے ایک بنیادی جینیاتی جزو کو ظاہر کیا ہے جس کا پتا مچھر اپنی قوت شامہ سے لگاتا ہے ۔
محققین نے کہا کہ اس تحقیق سے مچھر سے بچاؤ کے حفاظتی اسپرے بنانے کے لیے اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
طبی سائنس کی دنیا میں مچھر پر مطالعہ بہت اہم ہے کیونکہ مچھروں کے کاٹنے سے ملیریا، ڈینگی اور زکا وائرس سے ہونے والے بیماریاں پھیلتی ہیں۔
خون چوسنا مچھروں کی زندگی کے دورانیے کا ایک لازمی حصہ ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانوں کا خون صرف مادہ مچھر چوستی ہے جسے انڈوں کی پیداوار کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے جب مچھر انسان میزبانوں میں سے بعض افراد کو ترجیح دیتا ہے تو اس کشش کے لیے مختلف عوامل ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔
اکثر مطالعوں سے ظاہر ہوا ہے کہ فربہ افراد اور حاملہ عورتیں مچھروں کی اولین ترجیح ہوتے ہیں کیونکہ مچھر سانس کے ذریعے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے لیے کافی حساس ہے جبکہ حاملہ عورتیں عام عورتوں کے مقابلے میں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان میں مچھروں کے کاٹنے کا امکان دُگنا ہوتا ہے۔
اسی طرح جاپان سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کے ایک مطالعے سے ظاہر ہوا کہ مچھروں نے اے اور بی بلڈ گروپ رکھنے والوں کے مقابلے میں او بلڈ گروپ رکھنے والے لوگوں پر بار بار حملہ کیا تھا ۔
کئی سائنسی مطالعوں میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ لہسن ،وٹامن بی کھانے والوں اور شراب پینے والوں کو مچھروں سے کم خطرہ ہوتا ہے۔