سہیل انجم
بھارت میں گائے کے تحفظ کے نام پر انسانوں کے قتل نے ہر سنجیدہ اور امن پسند شخص کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ہجومی تشدد میں ملوث عناصر کو سخت ترین سزائیں دینے کا قانون وضع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لوگ احتجاج کے الگ الگ طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ ان میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم یافتہ اور دہلی میں مقیم کلکتہ کے فوٹوگرافر سُجاترو گھوش کا طریقہ بالکل منفرد ہے۔ انھوں نے فی الحال اپنے اس احتجاج کو خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف محدود کر رکھا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کا دائرہ جلد ہی بڑھائیں گے۔
حالیہ دنوں میں دہلی، ممبئی اور کلکتہ میں مختلف مقامات پر ایسی خواتین نظر آئیں جنھوں نے گائے کا مکھوٹہ یا ماسک پہن رکھا تھا۔ اس کے ذریعے وہ یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ایک مقدس گائے ہونا زیادہ محفوظ ہے بہ نسبت ایک عورت ہونے کے۔ اس طریقہ احتجاج کے خالق سجاترو گھوش وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ ”بھارت میں جانور بن جانا زیادہ محفوظ ہے“۔
وہ کہتے ہیں کہ میں ملک کی سیاسی سماجی صورت حال کی اس تبدیلی سے بہت فکرمند ہوں۔ میں نے بہت غور کرنے کے بعد اس طرح احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ گائے کے نام پر تشدد کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہم صرف احتجاج ہی کر سکتے ہیں۔
سجاترو پچھلے دنوں نیویارک کے دورے پر تھے۔ وہاں سے انھوں نے گائے کا ایک بہت خوبصورت ماسک خریدا اور یہاں آکر انھوں نے اس ماسک کے ساتھ تصویر کشی شروع کر دی۔ چونکہ ان کا فوکس خواتین پر ہے اس لیے انھوں نے الگ الگ مقامات پر خواتین کو گائے کا مکھوٹہ پہنا کر فوٹوگرافی شروع کر دی۔ انھوں نے ابھی دہلی، ممبئی اور کلکتہ میں یہ مہم چلائی ہے۔ اب وہ اسے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی لے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کے بعد مختلف ملکوں میں بھی ایسا ہی احتجاج کریں گے۔
انھوں نے دہلی میں انڈیا گیٹ، راشٹرپتی بھون کے سامنے اور دیگر مقامات پر اور اسی طرح ممبئی کے سیاحتی مقامات پر اور بازاروں میں اور کلکتہ کے ہوڑہ پل کے پاس تصویر کشی کی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ریسٹورنٹ میں کھانے کا انتظار کرتے ہوئے، اپنے دفتر میں کام کرتے ہوئے، بستر پر نیم دراز ہو کر موبائیل فون پر بات کرتے ہوئے اور ٹرین کے ڈبے میں لڑکیوں کے ماسک پہن کر احتجاج کرتے ہوئے تصویر کشی کی ہے۔
سجاترو نے بتایا کہ انھوں نے تصویر کشی کے لیے کسی ماڈل کا سہارا نہیں لیا بلکہ عام خواتین ماسک لگا کر تصویر کھنچوا رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جس خاتون کو بھی اپنے احتجاج کے بارے میں بتاتے ہیں وہ تصویر کشی کے لیے فوراً راضی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں گائے کے تحفظ کے خلاف نہیں ہوں لیکن میں خواتین اور دوسرے شہریوں کے تحفظ کے بھی حق میں ہوں۔
ان کا یہ احتجاج کچھ لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ وہ انھیں سوشل میڈیا پر Trollکر رہے ہیں اور انھیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے انھیں جان مارنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ لیکن سجاترو کا کہنا ہے کہ وہ ان دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور وہ اس کو پوری دنیا میں لے کر جائیں گے۔
دہلی میں 2012 میں رات کے وقت ایک چلتی بس میں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ ہونے والے اجتماعی زیادتی اور قتل کے واقعہ کے بعد خواتین کے خلاف جرائم پر لوگوں کی توجہ مبذول ہوئی ہے اور حکومت نے اس سلسلے میں موجود قوانین سخت کیے ہیں۔
دہلی کو جو ملک کا دارالحکومت ہے، خواتین کے خلاف جرائم کا دارالحکومت بھی کہا جانے لگا۔ یہاں جنسی زیادتی کے کم از کم 6 اور چھیڑ چھاڑ کے کم از کم 12 واقعات روزانہ پولیس میں رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ جبکہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق بہت سے واقعات کی پولیس میں رپورٹ ہی نہیں ہو پاتی۔
بھارت میں 2016 میں خواتین کے خلاف جرائم کے سوا تین لاکھ سے زیادہ واقعات پولیس میں رپورٹ ہوئے تھے۔
گائے کے تحفظ کے نام پر گزشتہ تین برسوں میں ایک درجن سے زائد افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ حالیہ واقعہ عید سے دو روز قبل دہلی سے ہریانہ کے بلبھ گڑھ جاتے ہوئے ٹرین کے اندر 16 سالہ حافظ جنید کا قتل ہے جسے بیف کھانے اور ملک دشمنی کے الزام میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد بھی بیف کے نام پر ہجوم کے ذریعے لوگوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔