رسائی کے لنکس

افغانستان کے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہیں دیا، امریکی سفیر


پاکستان میں امریکہ کے سیفر ڈیوڈ ہیل نے پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر لیفٹینٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ سے ملاقات کی ہے۔

ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ کی حالیہ افغانستان اور جنوبی ایشا پالیسی پر بات چیت کی گئی۔ یہ ملاقات پچاس منٹ تک جاری رہی۔

مشیر قومی سلامتی کے دفتر سے اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کا کہنا ہے کہ میڈیا پالیسی کے الگ الگ نکات کو لے کر ان کی تشریح کر رہا ہے اور مجموعی پالیسی کے خدوخال ظاہر نہیں کیے جارہے۔

انہوں نے واضح کیا ہے کہ امریکی صدر نے افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہیں دیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی نفی کی کہ پالیسی میں افغان مسئلہ کا حل صرف فوجی ذریعے سے حل کرنے کا کہا گیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ پالیسی میں ایسی کوئی بات شامل نہیں کہ جس میں افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کی شراکت داری نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ فوجی حکمت عملی اس پالیسی کا صرف ایک جزو ہے جو سیاسی حل کے ساتھ ہوگا۔

اعلامیہ کے مطابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کام کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا اس پالیسی کے مطابق خطے کے تمام ممالک مل کر کام کریں جن میں پاکستان کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ امریکہ چار فریقی مذاکرات کو دوبار شروع کرنا چاہتا ہے جس میں پاکستان کا مرکزی کردار ہوگا۔ امریکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سلسلے میں اپنا تعاون جاری رکھے گا۔

امریکی سفیر نے یہ بھی واضح کیا کہ افغانستان میں اضافی فوج کی تعیناتی کا مقصد افغان فوج کو تربیت فراہم کرنا ہے، افغانستان میں موجود کمانڈرز کا اضافی اختیارات کا مقصد پاکستان کی مخالف تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوری کارروائی کرنا ہے، افغان حکومت کو بھی دہشت گردی پر قابو پانے اور لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے، گورنس کو بہتربنانے کا کہا گیا ہے۔

افغانستان میں بھارت کے کردار پر امریکی سفیر نے واضح کیا کہ امریکہ پاکستان کے جذبات سے بخوبی آگاہ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں بھارت کا کردار صرف معاشی ترقی کے لیے ہے۔

امریکی سفیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا بغور جائزہ لے رہا ہے اور اس سلسلہ میں امریکہ سے مزید تفصیلات کا بھی خواہش مند ہے۔

انہوں نے امریکی صدر کے خطاب پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خطاب سے پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ دنیا کے سامنے پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔ پاکستان کو دھمکیاں دی گئیں اور پاکستان کا غلط تشخص پیش کیا گیا، یہ سب ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو غلط انداز میں دہشت گردی کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ نئی افغان پالیسی نے خطے کے توازن میں بگاڑ پیدا کیا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام اور پارلیمان نے اس پالیسی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امن کے لیے ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں افغانستان میں تنازعہ کے خاتمہ کے لیے کام کرنا ہوگا نا کہ جنگ یا فتح کی بات کی جائے، افغانستان میں تشدد کی بڑی وجہ غلط انداز میں جنگ مسلط کرنا ہے، انہوں نے واضح کیا کہ اگر افغستان میں صرف جنگ جیتنے کی کوشش کی گئی تو یہ نفرت مزید پھیلے گی اور حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے بھارت کے افغانستان میں کردار کو غیرضروری اور نقصان دہ قرار دیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ افغانستان کے بہتر اور تیز حل کے لیے فوجی کے ساتھ ساتھ سیاسی اتھارٹی کی قیام کی بھی ضرورت ہے۔

امریکی سفیر نے پاکستان کی تجاویز کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ افغانستان میں امن دونوں ملکوں کا باہمی ایجنڈہ ہے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ دونوں ملک مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کریں گے۔

XS
SM
MD
LG