پاکستان کا شمار دنیا میں خواتین کے لیے خراب ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انہیں شدید سماجی اور معاشی امتیاز کا سامنا ہے۔
یہ بات ویمن پیس اور سیکورٹی انڈیکس کی ایک تازہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کی لیے کام کرنے والے تنظیمیں اور ادارے ملک میں خواتین کے خلاف روا رکھے جانے والے سماجی امیتاز کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں تاہم صورت حال میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی ہے اور اس بات کی عکاسی اس رپورٹ میں بھی ہوتی ہے۔
دنیا کے 153 ملکوں میں خواتین کے لیے سیکورٹی، انصاف اور مختلف شعبوں میں ان کی شمولیت سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے لیے چوتھا خراب ترین ملک ہے اور اس رپورٹ کی درجہ بندی میں پاکستان 150ویں نمبر پر ہے۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف 24 فیصد خواتین برسر روزگار ہیں جبکہ پارلیمان میں ان کی نشتیں 20 فیصد ہیں۔
جارج ٹاؤن انسٹی ٹیوٹ فار ویمن پیس اور سیکورٹی نے یہ رپورٹ اوسلو کے پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی شراکت سے جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں سے سماجی سطح پر بھی امتیاز برتا جاتا ہے اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس وجہ سے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں کم پیدا ہورہی ہیں۔
اس رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں 27 فیصد خواتین کو اپنے شریک حیات کی طرف سے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور صرف 51 فیصد خواتین اپنے آپ کو ان جگہوں پر کام کرتے ہوئے محفوظ سمجھتی ہیں جو ان کے گھروں کے قریب ہے۔
حقوق نسواں کمیشن پنجاب کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نےکا کہنا ہے ملک میں خواتین کو درپیش مشکل اور خراب صورت حال کی کئی وجوہات ہیں جن میں قدامت پسند سوچ کے تحت عورت کو کمزور سمجھنا اور ان کو اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت نا دینا بھی ہے۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، یہ عمومی نظریہ ہے کہ عورت کو کام نہیں کرنا چاہیے اسے گھر ہی میں رہنا چاہیے، اس کی اپنی مرضی نہیں چلتی اور اسے گھر کے مردوں کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے۔ فیصلہ سازی میں عورتوں ک شراکت نا ہونا، یہ وہ عوامل ہیں جو اس قدامت پسندی کی وجہ بنتے ہیں جس وجہ سے عورت کے خلاف تشدد روا رکھا جاتا ہے ۔"
انہوں نے مزید کہا کہ عورتوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی یہی عوامل بنتے ہیں۔
فوزیہ وقار نے کہا کہ اگرچہ حالیہ سالوں میں حکومت نے خواتین کے حقوق کی تحفظ کے لیے قانونی سازی کرنے کے ساتھ کئی انتظامی اقدامات کیے ہیں تاہم ان کے بقول صورت حال میں اس صورت بہتر آسکتی ہے جب عورتوں سے متعلق معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی آئے گی۔