سپریم کورٹ نے کراچی میں ایک نوجوان شاہ زیب خان کے مقدمہ قتل میں شاہ رخ جتوئی اور دیگر ملزمان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ حکم سول سوسائٹی کے نمائندوں کی طرف سے شاہ زیب قتل کیس کو سیشن عدالت میں بھیجنے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائردرخواست کی چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے دیا۔
ہفتہ کو ہونے کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا، لیکن اپنے دوسرے فیصلے میں عدالت عالیہ کے بینچ نے اسے ذاتی جھگڑا قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا کہا۔
مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کے وکیل بیرسٹر لطیف کھوسہ کا استدلال تھا کہ فریقین میں تھپڑ مارنے پر جھگڑا ہوا تھا اور معافی نہ مانگنے پر فائرنگ ہوئی۔ ان کے بقول فریقین میں صلح ہو چکی ہے اس لیے اس مقدمے کی مزید سماعت کی ضرورت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نے "کسی عبادت گاہ پر حملہ نہیں جسے دہشت گردی سے تعبیر کیا جائے، جب واقعہ ہوا تو اس وقت وہاں لوگ موجود نہیں تھے۔"
دوسرے ملزم غلام مرتضیٰ لاشاری کے وکیل بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس واقعے سے دہشت یا خوف پھیلا۔
تین رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد سول سوسائٹی کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی اور وفاقی وزارت داخلہ کو ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا حکم دیا۔
25 دسمبر 2012ء کو کراچی کے علاقے کلفٹن میں شاہ زیب خان کو قتل کر دیا گیا تھا جس پر متمول خاندان اور ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک کے بیٹے شاہ رخ جتوئی سمیت چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے شاہ رخ اور سراج تالپور کو سزائے موت جب کہ سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید سنائی تھی۔
ان سزاؤں کے خلاف اپیل بھی دائر کی گئی تھی جب کہ گزشتہ نومبر میں سندھ ہائی کورٹ نے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات کو ختم کرتے ہوئے کیس از سر نو سماعت کے لیے سیشن جج کی عدالت میں بھیج دیا تھا۔
سیشن جج نے گزشتہ ماہ ہی ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس معاملے پر سول سوسائٹی کے نمائندوں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ان کا موقف ہے کہ اس واقعے سے اہل علاقہ میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلا لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس واقعے میں دہشت گردی کا عنصر موجود نہیں۔