ستار کاکڑ
پاکستان جمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی کے زیر انتظام بے سہار ا خواتین اور بے روزگار تعلیم یافتہ خواتین کو مقامی طور پر تیار کئے گئے زیورات میں خوبصورت قیمتی پتھروں کی پیوند کاری اور دیگر ہنر سکھانے جارہے ہیں اور مختصر عر صے میں لگ بھگ7 سو کے قریب خواتین اور لڑکیوں کو یہ ہنر سکھائے جا چکے ہیں جن میں سے 50 فیصد سے زائد خواتین اب اپنی تیار کردہ مصنوعات مقامی مارکیٹ میں فروخت کر کے باعزت روزگار سے وابستہ ہوگئی ہیں۔
اس ادارے میں تر بیت حاصل کر نے والی ضلع سبی کی ایک گریجویٹ طالبہ عدیلہ کا کہنا ہے کہ ادارے سے انہوں نے سنگ تراشی، زیورات میں قیمتی پتھروں کا استعمال اور دیگر ہنر سیکھے ہیں اور ان کی تیار کردہ اشیا مقامی مارکیٹ میں فروخت ہو گئیں جس سے انہیں مالی فائدہ ہوا ہے اور مقامی مارکیٹوں کے دکان داروں نے مزید مصنوعات تیار کرنے کا آرڈر بھی دے رکھا ہے جنہیں وہ اپنے گھر میں تیار کر رہی ہیں۔
پاکستان جمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی کی ڈیزائنر فرحین آغا نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ مرکز میں خواتین کو پانچ مختلف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں جس میں مقامی طور پر تیار کئے گئے زیورات میں قیمتی پتھروں کا لگانا، خام پتھروں کو صاف کر کے اُن پر کندہ کاری کرنا، تسبیح میں استعمال کرنے کے لئے جمز اسٹون کو تراشنا، خوبصورت پتھروں سے ہار بنانا اور قیمتی پتھروں کی شناخت شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کو ئٹہ اور دیگر شہروں میں اب قیمتی پتھروں سے بنائے ہوئے زیورات کے استعمال کا رُحجان بڑھتا جا رہا ہے دوسری طرف فیشن انڈسٹری میں بھی اب ان خوبصورت قیمتی پتھروں سے بنائے ہوئے زیورات کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کے باعث لڑکیوں کے لئے گھر بیٹھ کر باعزت روزگار کے دروازے کھول رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین اپنے گھروں میں بیٹھ کر دھات کے تار کے ذریعے ضروری نہیں کہ وہ سونا، پلاٹینم یا چاندی استعمال کریں بلکہ تراش شدہ خوبصورت پتھروں کو مشین کے ذریعے تابنے اور ایلو مینیم یا دیگر نرم تاروں کے ذریعے عقیق، فیروزہ اور دیگر قسم کے خوبصورت پتھروں کو جوڑ کر جیولری بنا لیں تو اس کے ذریعے خواتین بہت اچھے پیسے کما سکتی ہیں۔
پاکستان کا یہ جنوب مغربی صوبہ قدرتی وسائل بالخصوص قیمتی پتھروں کے ذخائر سے مالا مال ہے صوبے کے کئی اضلاع سے، جن میں چاغی، نوشکی، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، خضدار، لس بیلہ، قلات شامل ہیں، اب بھی سالانہ لاکھوں ٹن سنگ مر مر اور دیگر قیمتی پتھر نکالے جا رہے ہیں جس کے ملکی استعمال اور برآمد سے سالانہ اربوں روپے کا کثیر زرمبادلہ کمایا جا رہا ہے۔
فر حین آغا کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے نیم قبائلی معاشرے میں عام طور پر خواتین کو اپنا کاروبار کرنے کے لئے کو ئی شعبہ منتخب کرنے کا اختیار نہیں ہے اگر لڑکیا ں یہ ہنر سیکھ لیں اور ایک مشین خرید کر گھر میں بیٹھ کر فارغ اوقات کے دوران قیمتی پتھروں کو زیورات میں لگانے یا اس سے خواتین کے پہننے کےلئے خوبصورت ہار تیار کر کے مقامی مارکیٹ میں فروخت کر لیں تو اس سے خواتین کو اچھے پیسے ملیں گے اور بیوہ خواتین کو اپنے گھر اور بچوں کے اخراجات پورے کرنے میں مدد ملے گی۔
بلوچستان کے مرکزی شہر کو ئٹہ میں پاکستان جمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی کے زیر اہتمام 2011 سے بے سہارا اور بیوہ خواتین و تعلیم یافتہ لڑکیوں کو قیمتی پتھروں سے خوبصورت ہار ، اور زیورات اور دیگر اشیاء بنانے کے لئے مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں۔