پاکستان اور بھارت نے ایسے غیر فوجی قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے جن کی عمریں 70 سے زیادہ ہیں، یا وہ عورتیں ہیں یا وہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
دو ہمسایہ جوہری قوتوں کے درمیان یہ اتفاق رائے ایک ایسے موقع پر دیکھنے میں آیا ہے جب ان دونوں کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور آئے روز دونوں ایک دوسرے پر اپنے ملکوں میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع پر شدید تناؤ پایا جاتا ہے اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ، گولا باری اور جھڑپوں کے واقعات کثرت سے رونما ہو رہے ہیں جن میں درجنوں سیکیورٹی اہل کار اور عام شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے بدھ کے روز پہلی بار یہ انكشاف کیا کہ انہیں نئی دہلی کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر دونوں ملکوں کی جیلوں میں بند غیر فوجی قیدیوں کے تبادلے سے متعلق تجاویز موصول ہوئی ہیں ۔ بیان میں کہا ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے ان تجاویز کی منظوری دے دی ہے۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ملک ان قیدیوں کی اپنے ملکوں میں واپسی کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیں گے جو دماغی امراض میں مبتلا ہمسایہ ملک کے قیدیوں کا معائنہ کرکے ان کی حالت کے بارے میں رپورٹ پیش کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی تجاویز کی منظوری دینے کے ساتھ ساتھ خواجہ آصف نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ 60 سال سے زیادہ اور 18 سال سے کم عمر کے قیدیوں کا بھی اپنے وطن واپسی کے لیے تبادلہ کیا جائے۔
وزیر خارجہ نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ بھارت پاکستانی تجاویز کا مثبت جواب دے گا۔
دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ بات چیت بھارت کے انکار کی وجہ سے برسوں سے رکی ہوئی ہے۔ بھارت کا الزام ہے پاکستان سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہا۔
پاکستان دہشت گردی کی معاونت سے متعلق بھارتی الزامات کو مسلسل مسترد کرتا آیا ہے۔