امریکہ اور اسرائیل نے نئے سال کا آغاز ہوتے ہی اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق ادارے کو باضابطہ طور پر چھوڑ دیا ہے جس سے ایک سال سے زیادہ عرصہ پہلے شروع ہونے والا وہ عمل مکمل ہو گیا ہے جس کی ابتدا ان تحفظات سے ہوئی تھی کہ یہ عالمی ادارہ اسرائیل مخالف تعصب کو فروغ دے رہا ہے۔
اگرچہ امریکہ اور اسرائیل کا یونیسکو سے نکلنے کا عمل ضابطوں کے تحت ہوا ہے لیکن یہ اس عالمی ادارے کے لیے ایک دھچکا ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امن کی ترویج کے لیے قیام کیا گیا تھا۔
یونیسکو چھوڑنے کا نوٹس ٹرمپ انتظامیہ نے اکتوبر 2017 میں دیا تھا جس کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے بھی ایک ایسا ہی نوٹس دیا۔
پیرس میں قائم اس تنظیم کی جانب سے اسرائیل پر نکتہ چینی کو اسرائیل مخالف تعصب کہہ کر مذمت کی جاتی رہی ہے۔ یونیسکو نے مشرقی یروشلم میں قدیم یہودی مقامات کو فلسطینیوں کا ثقافتی ورثہ قرار دے کر 2011 میں اسے مکمل رکنیت دے دی تھی۔
امریکہ نے یونیسکو میں بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ادارہ اپنے عالمی ثقافتی پروگرام، ثقافتی مقامات اور روایات کے تحفظ کی بنا پر شہرت رکھتا ہے۔ یونیسکو لڑکیوں کی تعلم کے فروغ، ہولوکاسٹ کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے اخراج سے یونیسکو پر کوئی بڑا مالیاتی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ دونوں ملکوں نے 2011 میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر رکنیت دیے جانے کے بعد اس ادارے کی فنڈنگ روک دی تھی۔
امریکہ اس ادارے کے بجٹ کا تقریباً 22 فی صد ادا کرتا تھا۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے اس بارے میں کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا کیونکہ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے حکومتی سرگرمیاں جزوی طور پر معطل ہیں۔ تاہم اس سے قبل امریکہ نے یونیسکو کے عہدے داروں سے کہا تھا کہ وہ غیر رکن ملک کی حیثیت سے ادارے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔
اس سے قبل بھی امریکہ یونیسکو سے نکل چکا ہے۔ صدر ریگن کے عہد میں 1984 میں امریکی انتظامیہ یہ کہتے ہوئے یونیسکو سے الگ ہو گئی تھی کہ اس ادارے میں بدانتظامی اور بدعنوانی ہے اور اسے روسی مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں امریکہ 2003 میں یونیسکو میں دوبارہ شامل ہو گیا تھا۔