دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی ترسیل روکنے کے لئے قائم عالمی تنظیم 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' (ایف اے ٹی ایف) اور پاکستان کے درمیان اجلاس سوموار سے پیرس شروع ہو گیا ہے۔ پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ وہ اس پہلے مرحلے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تاہم بھارت کی جانب سے کلعدم جماعتوں کے معاملے کو اٹھائے جانے کا خدشہ ہے۔
بھارت کے وزیر داخلہ نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ہونے والے دہشت گرد حملےکے بعد جو اقدامات اٹھانے کا ذکر کیا ان میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں لانا بھی شامل تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گذشتہ سال پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرتے ہوئے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے کا کہا تھا۔ عالمی تنظیم نے پاکستان کو اس سال ستمبر تک 27 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرامد کو یقینی بنانے کیلئے کہا تھا۔ بصورت دیگر بلیک لسٹ میں شامل کردیا جائے گا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مجوزہ پلان آف ایکشن کے تحت کیے گئے اقدامات سے آگاہ کرنے کے لئے پاکستان کا ایک وفد وفاقی سیکرٹری خزانہ کی قیادت میں پیرس اجلاس میں شریک ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا اجلاس 17 سے 22 فروری تک جاری رہے گا۔ البتہ پاکستان کے ساتھ ایشیاء پیسفک گروپ کا اجلاس سوموار سے شروع ہوا ہے۔ پاکستان کے ایف اے ٹی ایف ممبر نہ ہونے کی وجہ سے ایشیا پیسفک گروپ پاکستان کی کارگردی رپورٹ اجلاس میں پیش کرے گا۔
ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر پاکستان نے اپنی اگلی کارکردگی رپورٹ رواں سال مئی جبکہ حتمی رپورٹ ستمبر میں بھی پیش کرنی ہے ۔
پاکستانی حکام ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ کو دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کو روکنے کی کوششوں، جعلی اکاونٹس اور مشکوک ٹرانزیکشنز کیخلاف اقدامات بارے میں آگاہ کرے گا اور ممنوعہ تنظیموں سے متعلق ایف اے ٹی ایف کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے گا۔
وزارت خزانہ حکام کا موقف ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے رقوم کی فراہمی کو روکنے کے لیے اسٹیٹ بنک، دیگر بنکوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مربوط تعاون کو مزید بہتر کیا گیا ہے۔ اسی بنا پر اجلاس میں شریک پاکستانی حکام پر امید ہیں کہ پاکستان یہ پہلا سنگ میل کامیابی سے عبور کر لے گا۔
اس اجلاس میں پاکستان 27 نکاتی ایکشن پلان میں سے پہلے مرحلے میں اُن پانچ نکات پر مبنی اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرے گا جن پر اتفاق کر لیا گیا تھا۔
تاہم بھارت کی جانب سے کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کیلئے بھارتی وزیر داخلہ کے بیان کو اسلام آباد نظر انداز نہیں کر رہا۔ پاکستانی حکام کو خدشہ ہے کہ بھارت کلعدم تنظیموں کا معاملہ اٹھا کر پاکستان کے لئے مشکل صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان ممنوعہ تنظیموں کے خلاف اقدامات اور شواہد پر مبنی تفصیلات سے آگاہ کرے۔ نئی دہلی ایسی معلومات اور شواہد چاہتا ہے جن سے ان ممنوعہ تنظیموں کی بھارتی بارڈر کے نزدیک سرگرمیوں پر ان کے تحفظات دور ہو سکیں۔
گذشہ ماہ اجلاس میں بھی بھارتی وفد نے کلعدم جماعتوں، لشکر طیبہ، فلاح انسانیت فونڈیشن، جیش محمد، جماعت الدعوہ اور چار دیگر ممنوعہ تنظیموں کا معاملہ اٹھایا تھا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری بھی مبینہ طور پر ممنوعہ تنظیم جیش محمد نے قبول کی ہے۔