لودھراں سے ہوتی ہوئی رحیم یارخان جاتے ہوئے جو قومی شاہراہ سڑک کے ذریعے سفر کرنے والوں کو ملتی ہے اسے بہاولپور کے مغربی بائی پاس سے گزرنا پڑتا ہے۔
یہ بائی پاس چند سال پہلے مکمل ہوا اور لودھراں سے آتے ہوئے دریائے ستلج کو عبور کرتے ہی ایک بڑے گول چکر پر پہنچتے ہیں تو بہاولپور شہر کے اندر جانے والی گاڑیاں بائیں طرف مڑ جاتی ہیں۔
پانچ کلو میٹر کے بعد ایک چوک پر ائیر فورس کا ایک پرانا جہاز ایستادہ ہے۔ اعظم چوک سے دائیں طرف آپ کو میدان نظر آتے ہیں جہاں کھیت ہیں لیکن آبادی بہت کم ہے۔ درختوں کے جُھنڈ کی موجودگی کے سبب اس اس جگہ کو ذخیرہ کہا جاتا ہے۔
جو لوگ اس سڑک پر باقاعدہ سفر کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس بائی پاس پر ذخیرہ کے بالکل سامنے پچھلے چند برسوں سے ایک عمارت زیر تعمیر تھی جو بڑا مدرسہ اور بڑی مسجد ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ مولانا مسعود اظہر کا نیا مدرسہ بن رہا ہے اور پھر اس بائی پاس پر اس ذخیرہ اور جنگل کے بالکل سامنے سفید رنگ کے پانچ گنبدوں والی عمارت ہی مدرسہ الصابر اور مسجد السبحان کہلانے لگی۔
یہ عمارت مبینہ طور پر جیش محمد اور مولانا مسعود اظہر سے وابستہ ہے۔ اس عمارت کے تین بڑےگیٹ ہیں اور ادرگرد لگے ہوئے سفیدے کے درخت اس عمارت کی دیواروں سے اونچے ہیں۔ اس عمارت کے ارد گرد کوئی اور عمارت نہیں۔ قریب قریب کوئی گھر بھی نہیں۔ اگر کچھ ہے تو وہ کھلے کھیت اور ان میں کاشت کی جانے والی کچھ سبزیاں یا جانوروں کے چارہ کے لیے گھاس ہے۔
پہلے بہت کم لوگ اس بائی پاس پر سفر کرتے تھے لیکن اب یہ مصروف شاہراہ ہے۔ کراچی اور رحیم یارخان سے آنے والے وہ لوگ جو بہالپور شہر میں نہیں جانا چاہتے وہ بھی اسی بائی پاس کو استعمال کرتے ہیں۔ 6 سے 8 کلو میٹر طویل اس بائی پاس پر اس مدرسے کے قریب ایک ڈرائیور ہوٹل ہے جس پر زیادہ تر ٹرک ڈرائیور چائے یا کھانا کھاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کی چہل پہل بھی کم دکھائی دیتی ہے۔
ہوٹل پر چائے پیتے ہوئے ایک مقامی شخص عباد سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ 'وہ خود تو کبھی اس مدرسہ کے اندر نہیں گیا لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ یہاں بچے ہی پڑھتے ہیں۔‘
چند روز قبل نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں پلوامہ واقعے کے بعد صورتحال کا جائزہ لیا گیا جہاں اور اقدامات اور اعلانات کیے گئے ان میں سے ایک عسکریت پسند اور انتہا پسندوں کے خلاف کوششوں کو تیز کرنے کا فیصلہ بھی سامنے آیا۔
اس فیصلے کے اگلے روز بہاولپور کے ڈپٹی کمشنر پولیس کے ہمراہ مدرسہ الصابر آیے اور اندر موجود اساتذہ سے بات کی ۔
ترجمان وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بہاولپور میں مبینہ طور پر جیش محمد کے مرکز کو حکومتی تحویل میں لے کر ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا ہے۔
اس مدرسہ میں ساٹھ سے زائد اساتذہ اور 650 سے زائد طلبہ زیرتعلیم ہیں۔
ہفتہ کے روز پھر ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او مقامی میڈیا کو جامعہ الصابر اور مسجد السبحان کے اندر لے جایا گیا۔
بہاولپور کے ایک سینئیر صحافی نے کہا کہ ’’وہ پہلی بار اس مدرسہ کی عمارت میں آیا ہے اور میں ہی نہیں تقریبا میڈیا کے کئی لوگ بھی پہلی بار یہاں آئے ہیں۔‘‘
جامعہ الصابر
بہاولپور شہر میں ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل کر جو پہلا چوک سامنے آتا ہے اس کے بائیں طرف جانے والی سڑک پر بھی جامعہ الصابر کی عمارت ہے۔ یہاں بھی مسجد اور مدرسہ ہے۔
سڑک پر اعظم چوک والے مدرسہ الصابر سے کہیں چھوٹا ایک دوسرا مدرسہ بھی موجود ہے جو مولا نا مسعود اظہر سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ اس جامعہ کا پہلا کمپلیکس ہے جو شہر کے گنجان آباد علاقے میں ہے جہاں کافی بڑی آبادی بھی ہے اور شہر کی بھرپور چہل پہل بھی۔ اس مدرسے کے اردگرد کئی ریسٹورانٹ اور دوکانیں بھی ہیں اور شادی ہال بھی ۔
بہالپور شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے آپ چائے خانے میں بیٹھ جایئں یا بازار میں چلتے ہوئے کسی سے بات کریں کہ بھارت کی دھمکیوں پر وہ کیا کہتے ہیں تو سب ہی کہتے ہیں کہ انہیں کسی بات کا ڈر نہیں۔ وہ کسی کارروائی سے نہیں ڈرتے ۔ مدرسہ کے بارے میں بات کی جائے تو اکثریت یہ کہتی ہے کہ انہوں نے یہاں کوئی جہادی ٹریینگ ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔ بھارت کہتا ہے تو غلط کہتا ہے۔
مولانا مسعود اظہر، بہالپور میں کب کب آتے ہیں اور ان کی دینی اور سماجی سرگرمیاں کیا ہیں؟ تو اس پر ایک سینئر صحافی نے کہا کہ پچھلے پندرہ برس سے انہیں بہاولپور میں کسی عوامی اور دینی اجتماع میں نہیں دیکھا گیا۔ آخری بار پندرہ برس پہلے انہوں نے یہاں عید کی نماز ضرور پرھائی تھی۔ اس کے بعد سے ان کی مصرفیات اور آمدورفت کا کچھ معلوم نہیں۔ جب بھی مدرسہ انتظامیہ سے پتا کیا جائے تو جواب ملتا ہے '' مولانا سفر میں ہیں۔ ''