رسائی کے لنکس

کیا واقعی آر ایس ایس بھارت کو ہندو ملک بنانا چاہتی ہے؟


راشٹریہ سیوک سنگھ کے رضا کاروں کا پونے میں اجتماع کا منظر۔(فائل فوٹو)
راشٹریہ سیوک سنگھ کے رضا کاروں کا پونے میں اجتماع کا منظر۔(فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر مسلسل یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کے نظریے پر چل رہے ہیں۔ عمران خان یہ کہتے آئے ہیں کہ اس نظریے سے نا صرف بھارت کے مسلمانوں بلکہ مسیحی اور سکھ برادری کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

بھارت کی جانب سے پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان کے آر ایس ایس سے متعلق خدشات پر بھارت کے سینئر تجزیہ کاروں نے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔

سینئر تجزیہ کار آلوک موہن کے خیال میں بھارت میں بھی شدت پسند مذہبی عناصر کو قوت حاصل ہے اور پاکستان میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ ان کے بقول، عمران خان نریندر مودی پر یہ الزام عائد کر کے پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کو ہندو مسلم معاملہ بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، جب کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ ان کے بقول، عمران خان دنیا کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ مودی بھارت کو ایک سیکولر ملک کی بجائے ایک ہندو ملک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آر ایس ایس بھارت کو ہندو اکثریتی ملک بنانا چاہتی ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ آر ایس ایس بھارت کو ہندو اکثریتی ملک بنانا چاہتی ہے۔

تجزیہ کار ودیا بھوشن راوت کہتے ہیں کہ عمران خان کے الزامات بے بنیاد نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت آر ایس ایس کے نظریات پر کاربند ہے جس کے تحت صرف اونچی ذات کے ہندوؤں کو ہی معاشرے میں بالادستی حاصل ہونی چاہیئے۔

آر ایس ایس کا قیام

راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا قیام 1925 میں کیشو رام بلی رام ہیڈگیوار کی جانب سے ناگپور میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنا اور بھارت کو ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لیے آر ایس ایس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں درجنوں تنظیمیں قائم کیں۔

سماجی امور کے ایک ماہر ڈاکٹر مہیپال سنگھ راٹھور کا بھی یہی خیال ہے کہ آر ایس ایس کا قیام ہندوتوا نظریات کو پروان چڑھا کر بھارت کے سیکولر تصور کو ختم کرنا اور اسے ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ایک ثقافتی تنظیم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ آر ایس ایس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی ہندو تہذیب و ثقافت کا تحفظ کر رہی ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی آر ایس ایس کا حصہ رہے ہیں۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بھی آر ایس ایس کا حصہ رہے ہیں۔

ہندوتوا کا فلسفہ

تجزیہ کاروں کے مطابق، ہندوؤں کی بھارت میں اجارہ داری اور برتری کا حصول آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور اسے ہندوتوا بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر مہیپال سنگھ راٹھور کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے کارکنوں کو جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی تربیت دی جاتی ہے۔ جسمانی تربیت میدانوں میں دی جاتی ہے جسے شاکھا کہتے ہیں۔ مہیپال سنگھ راٹھور کہتے ہیں کہ اس تربیت کے دوران آر ایس ایس میں شامل ہونے والے رضاکاروں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور دوسروں کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی پہلے ہندو تھے جنہوں نے بعد میں مذہب تبدیل کیا۔

آلوک موہن ان باتوں کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کا مقصد ہی ہندوستان کو ہندو ملک بنانا ہے۔ اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی ہے۔

آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں

بھارت میں آر ایس ایس کے زیر انتظام متعدد ذیلی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں رفاعی کاموں، صفائی ستھرائی سمیت مختلف شعبوں میں متحرک ہیں۔

آر ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ اس کے کارکنوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ بغیر معاوضے کے کام کرتے ہیں۔

آر ایس ایس پر پابندی

آر ایس ایس پر تین بار پابندی لگ چکی ہے۔ پہلی بار 30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس پر پابندی لگی تھی۔ آر ایس ایس کے ایک کارکن ناتھو رام نے مہاتما گاندھی کو صرف اس بنیاد پر قتل کیا تھا کہ وہ بھارت میں عدم تشدد کا فروغ چاہتے تھے۔

دوسری بار سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی۔ تیسری دفعہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔

بعض ماہرین کے مطابق، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے درمیان مضبوط رشتہ قائم ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی آٹھ سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شامل ہوئے تھے جب کہ وزیر داخلہ امت شاہ بھی چھوٹی عمر میں ہی اس کا حصہ بن گئے تھے۔ بھارت میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ آر ایس ایس سے ہی بڑی تعداد میں کارکن بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG