جنوبی اور وسط ایشیائی امور کے لئے امریکہ کی خصوصی مندوب ایلس ویلز نے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو سی پیک کے حوالے سے کوئى مشورہ نہیں دیا۔ سی پیک پر پاکستان کی حکومت کا آزادانہ فیصلہ ہے، کہ وہ کیسی ترقی کا راستہ اپناتی ہے اور کن ملکوں کے ساتھ اشتراک کرتی ہے۔
ایلس ویلس واشنگٹن کے ووڈرو ولسن سینٹر میں چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے حوالے سے ایک مذاکرے کے موقعے پر وائس آف امریکہ کے سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان تعلقات میں اس بات کی بہت گنجائش ہے کہ پرائىویٹ سیکٹر کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی جا سکے۔ انہوں نے اس سلسلے میں امریکی کمپنیوں پراکٹر اینڈ گیمبل اور ایکسون موبل اور دیگرکمپنیوں کا ذکر کیا،جنہوں نے، ان کے بقول، پاکستانیوں کی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں کردار ادا کیا ہے ۔
ایلس ویلز نے کہا کہ اگلے چند ماہ میں امریکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں ۔۔ان کے بقول، امریکی محکمہ تجارت پندرہ تجارتی وفود کو سپانسر کر رہا ہے۔ایلس ویلز کے بقول، اس سرمایہ کاری کا انحصار امریکی کمپنیوں پر کم اور پاکستان کی اس حوالے سے ریگولیشنز پر زیادہ ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں ورلڈ بنک کے ایز آف ڈوؤنگ بزنس انڈیکس پر بہت بہتر پرفارم کیا ہے۔ ہم ان تمام اقدامات کو سراہتے ہیں ، جو پاکستانی حکومت نے آئى ایم ایف پروگرام کے تحت کئے گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدامات پاکستان میں امریکی کمپنیوں اور مغربی ممالک سے سرمایہ کاری کے لئے ماحول کو سازگار بنائیں گے۔
افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکہ کوشش کر رہاہے کہ سیاسی حل کی راہ نکالی جا سکے ۔ امریکہ نے خطے میں امن عمل پر ہار نہیں مانی ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ أفغانستان کے عوام کے لیے ایسا ماحول پیدا ہو، جس میں تشدد کم ہو اور فریقین سیاسی طور پر پر امن ماحول میں بیٹھ کر سنجیدگی سے مذاکرات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا انحصار افغانستان کے حالات سے جڑاہوا نہیں ہے، لیکن علاقے میں استحکام کے لیے پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ہی ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اپنی سرزمین پرنان اسٹیٹ دہشت گردوں کی پراکسی کو ختم کرنے کا مطالبہ پورا کرتا ہے، اور اسکے بعد عوام کے درمیان کاروباری روابط مضبوط کرتا ہے، یہ سب ایسا ہے، جس پر ہم کام کر سکتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں پاکستان کی مدد کرنے کے سوال پر ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ مطالبات کی ایک فہرست ہے جو پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دی گئى ہے۔ اس میں ایک ملک کی دوسرے ملک کو مدد فراہم کرنے کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ان مطالبات کو پورا کرنے کی بات ہے۔ یقینا ہم پاکستان کو ان مطالبات کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی تکنیکی مدد فراہم کرنے کو تیار ہیں۔لیکن اس سب کاسارا انحصار پاکستانی اداروں پر ہے جو اس پر کام کر رہے ہیں، کہ وہ قوانین پر کیسے عملدرآمد کرتے ہیں یا نئے قوانین بناتے ہیں تاکہ دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کو روکا جا سکے جسکا عالمی برادی، بین الاقوامی فنانشل سسٹم کو شفاف رکھنے کے لیے حلف اٹھاتے ہیں
امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کیا کہتے ہیں؟
واشنگٹن کے ووڈرو ولسن سنٹر کے جنوبی ایشیا سینٹر مائیکل کوگل مین نے وائیس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا سی پیک کے بارے میں تحفظات سٹریٹجک ہیں۔ چونکہ امریکہ چین کو اپنا سب سے بڑا سٹریٹیجک حریف سمجھتا ہے۔اور در حقیقت ٹرمپ انتظامیہ چین کو نہ صرف اسٹریٹجک حریف کے طور پر بلکہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ چنانچہ چین کا پاکستان ، میں اپنا اثر و رسوخ اورسرمایہ کاری بڑھانا امریکی حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
مائیکل کوگل مین سے جب پوچھا گیا کہ امریکی حکومت کے پاس سی پیک کے حوالے سے کیا آپشنز ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ حقیقت میں امریکی حکومت سی پیک کے معاملے میں کچھ زیادہ نہیں کر سکتی اور امریکی حکومت سی پیک کو مختلف انداز میں انجام دینے کو ترجیح دے گی، جیسا کہ امریکہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ آئى ایم ایف کو سی پیک سے متعلق معاہدوں کو سامنے لانے پر مجبور کرے۔۔ لیکن امریکہ کے پاس کوئی بہت زیادہ آپشنز نہیں ہیں کہ وہ پاکستان کو سی پیک منصوبے سے پیچھے ہٹا سکے۔ سی پیک کتنا فائدہ مند اور دیر پا ہے اس کا جواب وقت ہی دے گا۔
کوگل مین کہتے ہیں کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو افغانستان کی عینک سے دیکھتا رہتا ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ یقینی طور پر پاکستان کو افغانستان میں کسی بھی قسم کے امن و مفاہمت کے عمل میں ایک کلیدی کھلاڑی سمجھتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔ اور جب تک یہ مسئلہ موجود ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رکھنا ہے ، امریکہ بطور شراکت دار پاکستان کی طرف دیکھتا رہے گا۔ لیکن افغانستان سے افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان امریکہ تعلقات ڈاؤن گریڈ ہو جائیں گے۔
پاکستان میں چین کے سفیر کیا کہتے ہیں؟
اسلام آباد میں تعینات چینی سفیر، یائو جِنگ نے 'وائس آف امریکہ' کے نمائندے ایاز گل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک کی بدولت 75000 سے زائد پاکستانی کارکنان کو روزگار کے مواقع فراہم ہوئے ہیں، جب کہ سال 2030ء تک 23 لاکھ سے زیادہ روزگار کے اضافی مواقع میسر آئیں گے۔
ساتھ ہی، چینی سفیر نے کہا کہ چینی سرمایہ کاری سے بننے والی خصوصی اقتصادی زونز کی مدد سے پاکستان کی برآمدات کی مقدار اور معیار میں خاصی بہتری آئے گی، جس کے باعث، توقع ہے کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر خاطر خواہ سطح تک بڑھ جائیں گے۔