بھارت کی ریاست گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔
تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور بھارت کے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے پولیس کو ہجوم کو کنٹرول نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
تحقیقاتی کمیشن کی 1500 صفحات پر مشتمل رپورٹ گجرات کے وزیر داخلہ پردیپ سن جدیجا نے بدھ کو قانون ساز اسمبلی میں پیش کی ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کسی وزیر کی جانب سے اقلیتوں پر حملوں کے لیے ہجوم کو اکسایا یا بھڑکایا گیا ہو۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بعض مقامات پر پولیس ہجوم پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ پولیس کی خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فسادات کے مقامات پر تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد کم تھی اور وہ مناسب طریقے سے مسلح بھی نہیں تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فسادات سے متاثرہ شہر احمد آباد میں پولیس نے اپنی پیشہ وارانہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہجوم سے نمٹنے کے لیے وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جس کی ضرورت تھی۔
تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پولیس افسران کے خلاف تحقیقات کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔
یاد رہے کہ ریاست گجرات میں 2002 کے فسادات کے بعد اسی سال وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے جلاؤ گھیراؤ اور ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ عدالت کے ججز پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جی ٹی نناوتی اور گجرات ہائی کورٹ کے سابق جج اکشے مہتا نے گجرات فسادات کی تحقیقات کے بعد حتمی رپورٹ 2014 میں وزیر اعلیٰ آنندبین پٹیل کو پیش کی تھی۔
کم و بیش پانچ سال بعد ریاست گجرات کے وزیرِ داخلہ نے کمیشن کی یہ رپورٹ بدھ کو قانون ساز اسمبلی میں پیش کی ہے۔