رسائی کے لنکس

سعودی عرب نے عمران خان کو ملائیشیا جانے سے روکنے کے دعوے کی تردید کر دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد میں سعودی عرب کے سفارت خانے نے ترکی کے صد رجب طیب ایردوان کے اس مبینہ دعوے تردید کی ہے کہ اس نے کوالا لمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا اور دھمکیاں دیں۔

اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں ترکی کا نام لیے بغیر کہا گیا ہے کہ بعض فریقین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جس میں دھمکیاں دی جائیں۔

"سفارت خانہ وضاحت کرتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہو۔ اس لیے کہ یہ گہرے تعلقات ہیں جو اعتماد، افہام وتفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امت مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

سفارت خانے کے بیان کے مطابق سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ سعودی عرب کی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔

اس سے قبل ترکی کے ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کا بیان سامنے آیا تھا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان پر دباؤ ڈالا۔

ترک خبر رساں ادارے، ’ڈیلی صباح‘ کے مطابق طیب ایردوان نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے علاوہ کسی اور فورم پر مسلم ممالک کے اجلاس پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ہمیشہ رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں۔ اور اس بار بھی کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے پاکستان کو روکنے کے لیے سعودی عرب نے دباؤ ڈالا۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان، مہاتیر محمد اور حسن روحانی
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان، مہاتیر محمد اور حسن روحانی

ڈیلی صباح کے مطابق، ترک صدر نے انکشاف کیا کہ سمٹ میں شرکت کی صورت میں سعودی عرب نے اپنے ملک میں 40 لاکھ پاکستانیوں کو واپس بھجوانے کی دھمکی دی۔ ان کے بقول سعودی عرب نے ان کی جگہ بنگلا دیشی شہریوں کو ملازمت دینے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرائی گئی سعودی امدادی رقم واپس لینے کی دھمکی بھی دی تھی۔

صدر طیب ایردوان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اپنی کمزور معیشت، مالی دشواریوں اور 40 لاکھ پاکستانیوں کے روزگار کی خاطر کیا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے اسی قسم کا دباؤ کا سامنا انڈونیشیا، عراق، شام اور صومالیہ کو بھی کرنا پڑا ہے۔

'بڑے مسلم ممالک کے تحفظات تھے'

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کوالالمپور سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے پہلی بار سرکاری بیان جاری کیا ہے، جس میں پاکستان نے تسلیم کیا ہے کہ بڑے مسلم ممالک کے تحفظات دور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے۔

دفتر خارجہ کی نئی ترجمان عائشہ فاروقی کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں حصہ نہیں لیا۔ کیوں کہ بڑے مسلم ممالک کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے وقت اور کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ تحفظات مسلم امہ میں تقسیم کے حوالے سے خدشات پر مبنی تھے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم امہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے کام جاری رکھے گا۔ پاکستان کا حالیہ اقدام مسلم امہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت سے میڈیا کو آگاہ کیا تھا۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کو فون کرکے سمٹ میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی تھی۔

ملائیشیا میں 40 سے زائد مسلم ممالک اور ماہر معاشیات کا اجلاس جاری ہے۔ جس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی دعوت قبول بھی کرلی تھی۔ تاہم، سعودی عرب کے دورے کے بعد سرکاری حکام کے بقول مسلم امہ کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی غرض سے سمٹ میں شرکت سے معذرت کرلی گئی ہے۔

پاکستان، ملائیشیا اور ترکی کا مشترکہ ٹی وی چینل

ماہرین کے مطابق پاکستان کی عدم شرکت کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ مل کر تین ملکی چینل بنانے کا خواب بھی بکھرتا نظر آرہا ہے۔

کوالالمپور سمٹ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ترکی، ملائیشیا اور قطر مل کر مشترکہ کاوشوں سے نیا ٹی وی چینل بنانے پر غور کر رہے ہیں۔ اگلی ٹوئٹ میں پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کوشش میں پاکستان بھی شامل ہو جائے گا۔

اگرچہ پاکستان کو شامل کرنے کی بات تو کی جا رہی ہے۔ لیکن پہلی ٹوئٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان اب اس چینل کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہو گا۔ بلکہ اب اس میں ملائیشیا، ترکی اور قطر ہی لیڈ کریں گے اور اگر پاکستان شامل بھی ہوا تو پاکستان کا کردار وہ نہیں ہوگا جو پہلے بتایا جا رہا تھا۔

اس چینل کے حوالے سے ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اسلاموفوبیا اور مسلم امہ کے مسائل اور مثبت تاثر اجاگر کرنے کے لیے تینوں ممالک کا ایک مشترکہ ٹی وی چینل بنایا جائے گا۔ اس چینل کے حوالے سے ابتدائی کام کا آغاز کردیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG