بھارتی شہر کانپور میں چالیس ہندوؤں نے محلے کی ایک مسلمان لڑکی کی شادی کی تقریب کے دوران حفاظتی پہرہ دے کر انسان دوستی کی مثال قائم کی، جب کہ بھارتی حکومت کی طرف سے شہریت کے متنازعہ قانون اور قومی رجسٹریشن ایکٹ کے نفاذ کے بعد احتجاجی مظاہروں میں گزشتہ ہفتے کانپور سے تعلق رکھنے والے دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، دلہن کے چچا واجد فضل نے بتایا کہ وہ اپنی بھتیجی کی شادی کی تاریخ مقرر کرنے کے اگلے روز علاقے میں کشیدگی کے باعث اسے منسوخ کرنے پر غور کر رہے تھے۔ اسی دوران، ان کے علاقے کی ہندو برادری کے کچھ اکابرین نے ان سے بچی کی بحفاظت رخصتی یقینی بنانے کا وعدہ کیا اور تسلی دی کہ شادی کی تقریب کے دوران وہ حفاظتی فرائض انجام دیں گے، تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔ شادی کے دن علاقے کی ہندو اکثریت سے تعلق رکھنے والے 40 افراد حفاظتی ڈیوٹی انجام دیتے رہے اور واجد فضل کی بھتیجی کی شادی کی تقریبات بخیر و خوبی انجام کو پہنچیں۔ واجد فضل کا کہنا ہے کہ وہ علاقے کی ہندو برادری کے اس جذبے اور مدد کو کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔
شادی کے دوران تحفظ فراہم کرنے والے ہندو گروپ کے منتظم، انوپ ٹواری نے بتایا کہ وہ خود بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سرگرم رکن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ملک میں کسی بھی اقلیتی برادری کے خلاف امتیاز برتنے کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلہن زینت ہماری بیٹیوں جیسی ہے اور یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ اس کی شادی کی مقررہ دن اور مقام پر باحفاظت تکمیل کو ممکن بنائیں۔
شہریت کے متنازعہ قانون اور قومی رجسٹریشن ایکٹ کے خلاف بھارت بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں میں اب تک کم سے کم 25 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ادھر جنوبی ریاست کیرالا میں ناروے کی 71 سالہ سیاح خاتون جین میٹ جانسن کو شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرنے پر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ کوچی ایئرپورٹ پر غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کے دفتر کے ترجمان انوپ کرشنا نے میڈیا کو بتایا کہ مذکورہ سیاح نے ویزے کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہذا، انہیں فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
جانسن نے فیس بک پر لکھا ہے، ’’یہ کوئی فسادات نہیں ہیں۔ یہ مضبوط ارادے والے لوگ ہیں، جو اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ مظاہرے میں شرکت سے قبل انہوں نے مقامی پولیس سے اجازت طلب کی تھی اور پولیس نے زبانی طور پر انہیں مظاہرے میں شریک ہونے کی اجازت دے دی تھی‘‘۔
اسی طرح جرمنی کے تبادلے پروگرام کے تحت بھارت میں مقیم طالب علم کو بھی دو احتجاجی ریلیوں میں شرکت کی بنا پر ملک چھوڑنے کیلئے کہا گیا ہے۔
اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں نے ان دونوں واقعات کی مذمت کی ہے۔ کانگریس پارٹی کی ترجمان شمع محمد نے ایک ٹویٹ میں کہا، ’’وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ کے اس اقدام سے دنیا بھر میں بھارت کے ایک بردبار جمہوریہ ہونے کے تصور کو دھچکا لگا ہے۔‘‘