رسائی کے لنکس

'اگر بڑے گھر والوں نے چال نہ چلی تو سیاسی منظرنامہ جوں کا توں رہے گا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سال 2019 کے اختتام اور سال 2020 کے آغاز پر ماہر نجوم، فلکیات اور اعداد و شمار کے ماہر اگلے سال سے متعلق پیش گوئیاں کر رہے ہیں، جبکہ اپوزیشن، سال 2020 کو تبدیلی کا سال گردانتے ہوئے انتخابات کا سال قرار دے رہی ہے۔

سال 2019 میں ایک طرف تو حکومت کی طرف سے سابق حکومتوں کو پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، تو دوسری طرف اپوزیشن،حکومتی تادیبی اقدامات پر سراپا احتجاج رہی۔ اس سال میں عدلیہ کی جانب سے بھی چند غیر متوقع فیصلے سامنے آئے، جن کی وجہ سے سال 2019 کو پاکستانی تاریخ میں ایک اہم ترین سال کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پچھلا سال 2019 گزر جانے اور نیا سال 2020 شروع ہونے پر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ حکومتی ایوانوں میں اس سال تبدیلی ممکن ہے۔ لیکن، اس کے لیے لازم ہے کہ اپوزیشن نعروں اور دعووں کی سیاست کی بجائے اصولوں کی سیاست کرے، ورنہ سال 2019 اور سال 2020 میں صرف 'انیس بیس' کا ہی فرق ہوگا۔

پارلیمانی سیاست اور مستقبل

سینئر تجزیہ کار اور صحافی عاصمہ شیرازی کا نئے سال میں سیاسی منظرنامے میں متوقع تبدیلیوں سے متعلق کہنا ہے کہ نئے سال میں تبدیلیاں ممکن ہوسکتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ تبدیلی اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب کوئی ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے یا پھر صورتحال ایسی ہو جائے کہ حکومت کو خود اسمبلیاں توڑنی پڑتی ہیں۔

عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال غیر مستحکم بھی ہوسکتی ہے اور اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک کنکر پھینکا ہے، جو بلاول بھٹو نے متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ میں وزارتوں کی پیش کش کی ہے۔ اسی طرح سے بلوچستان نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق، یہ دو بڑے اتحادی حکومت کے ساتھ رہ جائیں گے اور اگر یہ دونوں حکومتی اتحادی ہٹ جاتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی بات ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ تب ہوگا جب بڑے گھر کے ستارے اپنی چال چلیں گے اور اگر انہوں نے چال نہ چلی تو سیاسی منظر نامہ جوں کا توں رہے گا۔

اپوزیشن کی طرف سے اس سال کو انتخابات کا سال قرار دیے جانے پر عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ یہ صرف اس صورت ممکن ہے کہ جب اپوزیشن نعروں اور دعووں سے ہٹ کر اصولوں کی سیاست کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے بعد اپوزیشن کا اتحاد نہ ایک صفحے پر نظر آتا ہے اور نہ ہی ایک جگہ پر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز لیگ کی قیادت پاکستان میں موجود نہیں ہے اور مریم نواز بالکل ہی خاموش ہیں۔ اگر تو یہ اپوزیشن اکٹھی ہوجاتی ہے اور حکومتی اتحادیوں کو ساتھ ملا کر ان ہاؤس تبدیلی کی طرف جاتی ہے تو شائد ان کو کوئی کامیابی مل جائے۔ دوسری صورت میں اپوزیشن کو کامیابی صرف اس صورت مل سکتی ہے کہ کہیں اور سے کوئی چال چلی جائے، جسے اپوزیشن فالو کرے۔ اس کے امکانات کیا ہیں۔ یہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملات حل ہونے کے بعد ہی نظر آسکے گا۔

نئے سال میں بھی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا ایک صفحے پر قائم رہنے سے متعلق عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ساری چیزیں پاکستان کی معیشت کے گرد گھومتی ہیں اور معاشی اعداد و شمار آئندہ سال کی کوئی اچھی تصویر نہیں دکھا رہے۔ ایسی صورتحال میں الزام طاقتور حلقوں پر بھی آتا ہے اور وہ اس کو کتنا برداشت کر پائیں گے۔ یہ دیکھنا ہوگا۔ اس سے عوامی غم و غصہ بھی بڑھے گا، کیونکہ معاشی حالات بہت بدتر ہوگئے ہیں۔ معاشی صورتحال ہی حکومت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر رہنے کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہو جانے کے بعد کی صورتحال سے متعلق عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ایک طرف آرمی ایکٹ میں ترامیم اور دوسری طرف حکومت کا سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست جمع کروانا، یہ دو متضاد چیزیں ہیں اور یہ کنفیوزن پیدا کر رہی ہیں۔ اگر آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ حل ہوجاتا ہے تو بھی صورتحال کا دار و مدار معاشی صورتحال پر ہی ہوگا۔

نئے سال میں عدلیہ کی اہمیت سے متعلق صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ عدلیہ بہت اہم کردار ادا کرے گی اور جمہوریت کا ایک اہم ستون بن کر سامنے آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی قریب میں آنے والے فیصلے غیر متوقع فیصلے تھے۔ عدلیہ کا ان فیصلوں سے پیچھے ہٹنا اور یا ان سے الگ ہو کر کچھ کرنا، عدلیہ کے سیٹ اپ کے لیے کافی مشکل ہوگا۔

خارجہ امور

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب اور سابق سفارتکار شمشاد احمد کا نئے سال میں پاکستان کو خارجہ پالیسی سے متعلق چیلنجز کے بارے کہنا ہے کہ پاکستان کو کوئی نئے چیلنجز درپیش نہیں ہوں گے اور ایک سال گزرتا ہے اور ہم نجومیوں کی پیشن گوئیوں کی بنیاد پر دوسرا سال شروع کرتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم نے خود کیا کرنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کی بات جب کی جاتی ہے تو ہم یہ سوچتے نہیں کہ جو کچھ آپ اندر سے ہیں اس کا بیرونی عکس، خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک ڈائریکشن تو لی ہے۔ لیکن وہ جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ ہر چیز جادو سے ہوگی۔ ان کے بقول، عمران خان نے جو راستہ اپنایا ہے، وہ راستہ ان ممالک نے لیا تھا جو جنگوں میں تباہ ہوئے تھے۔ لیکن اس راستے میں تعمیر نو کے لیے پچیس تیس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

ملائشیا کے شہر کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت نہ کرنے اور اس کے مستقبل پر اثرات سے متعلق شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ دنیا میں مسلم ممالک بہت کمزور ہوگئے ہیں تو کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور او آئی سی غیر فعل ہو چکی ہے۔ تو ان کا یہی خیال تھا کہ ایک نیا پلیٹ فارم بنایا جائے گا۔ لیکن، وزیراعظم عمران خان تو نئے ہیں ابھی۔ انہیں کچھ پتا ہی نہیں ہے ان چیزوں کا۔ لیکن دوسرے دونوں سربراہوں کو یہ اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ سعودی عرب کے بغیر مسلم دنیا نا مکمل ہے۔ ان کے بقول، سعودی عرب کو خارج کرنا غلط فیصلہ تھا۔

سال 2020 میں پاک بھارت تعلقات کے بارے میں شمشاد احمد کا کہنا ہے کہ جب تک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہونا بہت مشکل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف ایک ہی راستہ ہے کہ امریکہ بھارت کو کچھ عقل سکھائے اور نریندر مودی سے وہ سب چیزیں واپس کروائے جو اس نے کشمیر میں کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مودی مسلمانوں کے خلاف جو اقدامات لے رہا ہے، وہ بند نہیں ہوتے۔ انہیں نہیں لگتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔

افغانستان کے صدارتی انتخابات میں صدر اشرف غنی کی فتح کے بعد پاکستان سے تعلقات کے بارے میں شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہزاروں سال پرانا خون کا رشتہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان بین الاقوامی یا خطے کی سیاسیات کی وجہ سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک مل کر پہلے تو افغانستان میں امن کی کوشش کریں، جو پاکستان کر رہا ہے۔ ان کے بقول، افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں امن ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں حکومت کا مسئلہ حل ہوگیا ہے اور پاکستان اپنا اثر و رسوخ ہر طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔

معاشی امور

حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں سے نئے سال میں معاشی استحکام سے متعلق ماہر معاشیات مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں سے نئے سال میں بالکل استحکام آئے گا اور انہیں نظر آرہا ہے کہ پاکستان کا ماہانہ خسارہ دو سو ڈھائی سو ملین ڈالر پر آگیا ہے، جو کہ پہلے لگ بھگ دو ارب ڈالر تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی بجٹ خسارہ پہلی سہ ماہی میں نہ صرف کم ہوا، بلکہ ہمارا خسارہ، سرپلس ہوگیا۔ ان کے بقول، حکومت کے بجٹ اخراجات بھی کافی حد تک کنٹرول میں ہیں، تو ان وجوہات کی وجہ سے آگے جا کر ہم دیکھیں گے کہ معیشت میں استحکام آئے گا۔

نیب قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں کے بعد سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے اور سرمایہ کاری بڑھنے سے متعلق مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا بریک تھرو ہے، جس سے نہ صرف سرمایہ دار بلکہ سرکاری ادارے بھی گھبراتے تھے اور نیا بزنس شروع کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کے پاس ہوتے ہی ہم دیکھیں گے کہ کاروباری لوگ کھل کر کام کریں گے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دیے گئے ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے حکومت کا ٹیکس ترمیمی آرڈیننس جاری کرنے اور پاکستان کا اس سال ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے سے متعلق سوال پر مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال میں جتنے اقدامات پاکستان نے کیے ہیں، اس حساب سے تو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکل جانا چاہیے تھا۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس پر گلوبل حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس سال جنوری فروری میں نہ سہی لیکن جون میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان نکل جائے گا۔

سال 2019 میں پٹرول، گیس، بجلی اور اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے بعد اس سال حکومت کی طرف سے عوام کے لیے ریلیف سے متعلق مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف ملے گا جب حکومت کو بجٹ خسارے میں کمی ہوگی اور اشیا خورد و نوش میں ہوشربا اضافے بھی اس لیے کیے گئے تھے کہ حکومت کے گردشی قرضے اور دیگر قرضے بھی بڑھتے جا رہے تھے کیونکہ بجٹ خسارہ پورا کرنا تھا۔ ان کے بقول، جیسے جیسے حکومت کے معاشی حالات بہتر ہونگے، حکومت فوائد عوام کو لوٹانا شروع کر دے گی۔

XS
SM
MD
LG