افغان طالبان کے وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں قطر میں امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر سے ملاقات کی ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے پیر کی شام ہونے والی ملاقات میں افغانستان کی صورتِ حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
سہیل شاہین نے بتایا کہ طالبان رہنماؤں امیر خان متقی اور عباس ستنکزئی بھی ملا برادر کے ہمراہ ہیں۔
اس سے قبل یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ امیر خان متقی کو طالبان مذاکرات کاروں کی ٹیم سے خارج کر دیا گیا ہے۔ تاہم، سہیل شاہین نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیر کو ہونے والے مذاکراتی عمل میں شریک تھے۔
سابق افغان اٹارنی جنرل مولوی جلال الدین شنواری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فریقین نے مذاکرات کے دوران امن معاہدے کی تاریخ اور جگہ کے انتخاب پر بات چیت کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ امن معاہدے کی تاریخی تقریب کے موقع پر علاقائی ممالک اور اس عمل میں شامل سہولت کاروں کو دعوت دی جائے گی۔
اس سے قبل افغان طالبان نے کہا تھا کہ اُنہوں نے امن معاہدے کے لیے ماحول سازگار بنانے اور امریکی فوج کے پرُامن انخلا کے لیے افغانستان میں اپنی کارروائیاں محدود کر دی ہیں۔
سہیل شاہین نے اُمید ظاہر کی تھی کہ جنوری کے اختتام تک امریکہ، طالبان امن معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔
سابق عسکری رہنما حاجی دین محمد کا کہنا ہے کہ امریکہ، طالبان امن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو گا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی سوئٹزرلینڈ میں شیڈول ملاقات کو بھی ماہرین امریکہ، طالبان امن معاہدے کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس روانہ ہو چکے ہیں۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کا سلسلہ حالیہ دنوں میں دوبارہ شروع ہوا ہے۔
طالبان وفد نے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد سے بھی حالیہ دنوں میں ملاقاتیں کی تھیں۔ البتہ، ماہرین امریکی فوجی حکام کے ساتھ طالبان کے براہ راست مذاکرات کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ سال کے آغاز پر شروع ہوئے تھے۔ مذاکرات کے کئی دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئے، جن میں جنگ بندی سمیت افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر بات چیت ہوئی۔
البتہ گزشتہ سال ستمبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں پرُتشدد کارروائیاں بڑھنے کا عذر پیش کرتے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ معطل کر دیا تھا۔
امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ طالبان افغانستان میں امریکی اور افغان فورسز کے خلاف کارروائیاں بند کریں۔ تاہم طالبان کا یہ موقف ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔
افغانستان میں لگ بھگ 18 سال سے جنگ جاری ہے۔ امریکی حکام کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان سے انخلا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل طالبان کو یہ ضمانت دینا ہو گی کہ وہ آئندہ افغانستان میں القاعدہ یا دیگر عسکری تنظیموں کو پنپنے نہیں دیں گے۔ اور یہ بھی ضمانت دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر اثر و رُسوخ رکھتے ہیں۔ امریکہ کی یہ بھی خواہش رہی ہے کہ طالبان، کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے ملک کے آئندہ کے سیاسی مستقبل پر بات چیت کریں۔ لیکن طالبان کابل حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس سے انکار کرتے آئے ہیں۔