صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم اس وعدے پر چلائی تھی کہ وہ امریکہ کو بقول ان کے ’’کبھی نہ ختم والی جنگوں‘‘ سے نجات دلوائیں گے۔ تاہم اب بھی امریکہ کے دو لاکھ فوجی بیرون ملک تعینات ہیں اور مشرق وسطیٰ میں اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ امریکہ فوجی موجود ہیں جب صدر ٹرمپ اقتدار میں آئے تھے۔
شام کے شمال مشرقی علاقے میں بدامنی کے دوران صدر ٹرمپ کی طرف سے اکتوبر میں اچانک امریکی فوجیوں کو واپس بلا لینے کے فیصلے کے نتیجے میں ترکی کو کردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا بھرپور موقع مل گیا۔
اس کے کئی ہفتے بعد پینٹاگان کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ امریکہ کے فوجی انخلا کے فیصلے سے دہشت گرد گروپ داعش کو دوبارہ مستحکم ہونے کا موقع مل گیا ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے جیرالڈ فیئرسائن کا کہنا ہے کہ شام میں ہماری پوزیشن اب اس وقت سے زیادہ غیر مستحکم اور زیادہ پیچیدہ ہے جب صدر ٹرمپ نے صدر اردوان سے معاہدہ طے کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اپنے فوجیوں کو شام سے نکال کر عراق بھجوا دیا ہے جہاں اب امریکی فوجیوں کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے چند سو امریکی فوجیوں کو شام میں رہنے دیا ہے تاکہ وہ شام میں تیل کی تنصیبات کی حفاظت کر سکیں اور انہیں داعش کے قبضے میں جانے سے بچا سکیں۔
داعش نے عراق اور شام میں اپنا بیشتر علاقہ کھو دیا ہے۔ تاہم دہشت گردی اور پر تشدد انتہا پسندی اب بھی ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔
مرکز برائے سٹریٹجک اور بین الاقوامی تدریس کے انٹنی کورڈس مین کہتے ہیں کہ اس علاقے میں کوئی ایسا استحکام موجود نہیں ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ہمیں وہاں مزید فوجیوں کو تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
تاہم پھر بھی صدر ٹرمپ فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ وہ داعش کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہو چکے ہیں اور اس کے لیڈر ابوبکر البغدادی کو ہلاک کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بات نومبر میں افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے کے دوران فوجیوں سے ملاقات کرتے ہوئے دہرائی تھی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شام میں داعش کی خلافت اب ہماری ہے اور وہ یعنی ابوبکر البغدادی ہلاک ہو چکا ہے۔
افغانستان سے دو ہزار فوجی واپس بلا لیے گئے ہیں اور اب وہاں امریکی فوجیوں کی تعداد 12,000 رہ گئی ہے۔
ادھر طالبان کے ساتھ امن بات چیت جاری ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم تب تک وہاں رہیں گے جب تک کوئی سمجھوتہ طے نہیں کر لیتے یا ہمیں مکمل فتح حاصل نہیں ہو جاتی، اور طالبان سمجھوتہ کرنے کے بہت زیادہ خواہش مند ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت بھی مؤقف اختیار کرنے کی مہم چلائی اور وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد مسلسل اس ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ستمبر میں سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد تین ہزار فوجی سعودی عرب بھیجے۔ سعودی عرب اس حملے کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
کئی ماہ قبل صدر ٹرمپ نے امریکی کانگریس میں دونوں جماعتوں کی طرف سے یمن میں سعودی عرب کی لڑائی کے حمایت میں پیش کی گئی قرار داد کو ویٹو کر دیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مجموعی طور پر واضح اور شفاف خارجہ پالیسی کو ظاہر نہیں کرتے۔
مرکز برائے سٹریٹجک اور بین الاقوامی تدریس کے اینٹنی کورڈس مین کہتے ہیں کہ اس تنازعے کے حل کے لئے ہمارے پاس کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ لہذا بنیادی طور پر جب آپ اس علاقے کو دیکھتے ہیں تو وہاں کے مسائل خاصے شدید ہیں اور ہم نے انہیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کوششوں کو مربوط بنائے بغیر اور امن کے لئے کوئی واضح منصوبہ شروع کیے بغیر دریائے اردن کے مغربی کنارے اور فلسطین کے مسئلے کے بارے میں نیا مؤقف اختیار کر لیا اور یوں ہم نے ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
درایں اثنا جنوبی کوریا میں امریکہ کے 28,000 فوجی تعینات ہیں جن کا مقصد اس کے ہمسائے کی طرف سے کسی ممکنہ خطرے کو روکنا ہے۔ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن سے ملاقاتوں کے باوجو شمالی کوریا کو میزائل تجربات بند کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہے ہیں اور شمالی کوریا کے اہل کار یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اس سال کے اختتام پر کرسمس کا خاص تحفہ دیں گے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مائیک اوہینلن کا کہنا ہے کہ کم جونگ اُن صدر ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکی افسر شاہی خود صدر ٹرمپ کے مقابلے میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے یا مذاکرات کے حق میں نہیں ہے۔
اس وقت امریکی فوجوں کی کل 13 لاکھ نفری میں سے دو لاکھ فوجی دنیا بھر میں تعینات ہیں۔ یوں تجزیہ کار صدر ٹرمپ کے انتخابی وعدہ کے تناظر میں ان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سوال اٹھا رہے ہیں۔