بھارت کی ریاست آسام میں حکومت ایک سروے کرانے جا رہی ہے جس میں مقامی مسلمان آبادی اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مہاجرین کی شناخت کی جا سکے گی۔
آسام میں اقلیتی امور کی ترقی کے بورڈ کے چیئرمین مومن الاول نے کہا ہے کہ ریاست میں ایک کروڑ 30 لاکھ مسلمان آباد ہیں جن میں سے 90 لاکھ بنگلہ دیشی نژاد ہیں۔ باقی 40 لاکھ افراد مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جن کی نشان دہی ہونا ضروری ہے۔
بھارت کے اخبار 'دی ہندو' کی رپورٹ کے مطابق مومن الاول کے مطابق کہ مقامی مسلمان حکومت کے فلاحی منصوبوں سے اس لیے فائدہ نہیں اٹھا پاتے کیوں کہ ان کی درست تعداد اور باقاعدہ شناخت موجود نہیں ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں پہلے ہی متنازع شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج جاری ہے جب کہ اس قانون کے خلاف سب سے زیادہ پر تشدد احتجاج ریاست آسام میں ہی دیکھنے میں آیا تھا۔
'دی ہندو' کی رپورٹ کے مطابق آسام کی ریاستی حکومت کے منصوبے کے مطابق ابتدائی طور پر چار اقلیتی قبائل گوریا، موریام دیسی اور جولاہا میں سروے ہوگا۔ ان قبائل کو مقامی قرار دیا جا رہا ہے۔
آسام کی اقلیتوں کی بہبود کی وزارت کے وزیر رنجیت دتہ کی سربراہی میں گزشتہ ہفتے ایک اجلاس ہوا تھا۔ جس میں ان چاروں ذاتوں کی مختلف تنظیموں کے عہدیداران سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز شریک ہوئے تھے۔ اجلاس میں سروے سے متعلق مختلف امور پر فیصلے کیے گئے۔
سروے سے متعلق آسام کی اقلیتوں کی بہبود کے بورڈ کے چیئرمین مومن الاول، جو جنگوستیہ سمانوے پریشاد آسام(جے ایس پی اے) کے سربراہ بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ اس سروے کا مقصد ریاست میں آنے والی جغرافیائی تبدیلیوں میں مقامی لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل رجسٹر آف سیٹیزن (این آر سی) میں لاکھوں بنگلہ دیشی نژاد شامل ہیں۔ اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم نے ابھی اقدامات نہ کیے تو آسام سے تمام مقامی قبائل وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائیں گے۔
بھارت کے اخبار ' ٹائمز آف انڈیا' کی رپورٹ کے مطابق مومن الاول کا کہنا تھا کہ مشرقی بنگال، مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں اور مقامی مسلمانوں کے نام ایک جیسے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو متعدد فلاحی منصوبوں کے اطلاق میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خیال رہے کہ آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اتحادی حکومت قائم ہے۔
مومن الاول کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت مقامی مسلمانوں کی فلاح کے لیے پر عزم ہے اس لیے ان کی شناخت باہر سے آئے ہوئے افراد سے الگ ہونی چاہیے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مردم شمار اسی مالی سال میں کی جائے گی۔
خیال رہے کہ ریاست آسام میں گزشتہ برس نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو 'غیر بھارتی' قرار دیتے ہوئے ان کی شہریت منسوخ کردی تھی جب کہ ان کے نام بھی بھارتی شہریت رکھنے والے افراد کی فہرست سے نکال دیے گئے تھے۔
بعد ازاں دسمبر میں بھارت کی پارلیمنٹ نے شہریت سے متعلق ایک اور قانون سی اے اے بھی منظور کیا جس کے تحت 6 سال قبل پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم مہاجرین کو شہریت دینے کی منظوری دی گئی۔ اس قانون کے خلاف بھی تاحال احتجاج جاری ہے۔ اس میں مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے اس لیے مبصرین اور مسلمان قانون کو مسلم مخالف قرار دے رہے ہیں۔