بھارت بھی اس وقت دیگر ممالک کی طرح مختلف سطح پر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مصروف ہے۔ ملک بھر میں ہنگامی حالات ہیں جب کہ اکثر ریاستوں اور شہروں میں لاک ڈاون کر دیا گیا ہے۔ کئی ریاستوں میں کرفیو بھی نافذ ہے۔
کرونا وائرس نے سیاسی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی تمام قسم کی سرگرمیوں کا محور تبدیل کر دیا ہے جب کہ ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔
اس وبا کی بھارت آمد سے قبل مختلف معاملات میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ خاص طور پر اقتصادی محاذ پر حکومت بہت زیادہ مصروف تھی۔ اقتصادی شرح نمو میں گرواٹ سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے تھے۔
حزب اختلاف کی جانب سے حکومت پر مسلسل تنقید کی جا رہی تھی۔ دہلی میں حال ہی میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت ہدف تنقید تھی۔ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کسی نہ کسی معاملے پر نوک جھونک بھی چل رہی تھی۔
حکومت کی جانب سے آبادی کے رجسٹر نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) پر یکم اپریل سے کام شروع ہونے والا تھا۔ حکومت نے اس سلسلے میں جو طریقہ کار وضع کیا ہے اس پر حزب اختلاف شدید نکتہ چینی کر رہی تھی جب کہ سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ وہ این پی آر کا بائیکاٹ کریں گی۔
اسی طرح شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے معاملے پر حکومت پر نکتہ چینی کی جا رہی تھی۔ سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں ریلیاں نکالی جا رہی تھیں اور مظاہرے ہو رہے تھے۔
جنوبی دہلی کے شاہین باغ میں 15 دسمبر سے سی اے اے کے خلاف خواتین کا دھرنا جاری تھا۔ شاہین باغ کا دھرنا سی اے اے کے خلاف احتجاج کی ایک علامت بن گیا تھا۔
کرونا وائرس کے طوفان سے کیسے نمٹا جائے
کرونا وائرس کا طوفان کیا آیا کہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ اب نہ صرف حکومت بلکہ حزب اختلاف کی جماعتوں اور عوام کی بھی بس ایک ہی ترجیح ہے اور وہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کے طوفان سے کیسے نمٹا جائے اور جو تباہی سروں پر منڈلا رہی ہے اس سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔
تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے عذاب سے قبل بھی بھارت میں اقتصادی بدحالی تھی لیکن اس وبا کے ساتھ اس بدحالی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
ان کے بقول پوری دنیا کا بازار مندی کا شکار ہے۔ اسی لیے بھارت پر بھی اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ یہاں حکومت کو کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ اقتصادی بدحالی سے بھی نمٹنا ہے۔
معاشی پیکج کا اعلان متوقع
پرتاپ سوم ونشی نے کہا کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ 30 جون تک بڑھا دی ہے۔ اس کے علاوہ تمام تجارتی و مالیاتی لین دین پر بینک چارجز کم کر دیے گئے ہیں۔ اے ٹی ایم سے تین ماہ تک بغیر کوئی چارج دیے پیسے نکالے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اقتصادی حالات کو سنبھالنے کے لیے جلد معاشی پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔
حکومت کی تیاری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ حکومت وبائی مرض سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اسی لیے اس نے خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں پازیٹیو کیسیز پائے گئے ہیں، لاک ڈاون کر دیا ہے۔
'عوام میں ابھی بھی شعور پیدا نہیں ہوا'
حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ عوام کے مجموعی رویے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ عوام میں ابھی وہ شعور پیدا نہیں ہوا ہے جس کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ حکومت کے اقدامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ایک روز قبل 900 افراد کے خلاف کاررروائی کی گئی ہے۔
ایک اور سینئر تجزیہ کار انجم نعیم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کرونا وائرس نے حکومتی و عوامی سطح پر ترجیحات بدل دی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خود حکومت نے اپنے بہت سے کام موخر کر دیے ہیں۔
'سی اے اے اور این پی آر معطل کر دیے جائیں گے'
وہ خاص طور پر سی اے اے اور این پی آر کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ابھی ان کو موخر کرنے کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا لیکن حکومت جس طرح سے کرونا وائرس سے مقابلے کے لیے جتن کر رہی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مذکورہ سرگرمیاں معطل کر دے گی۔
سینئر تجزیہ کار انجم نعیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی تبدیلیاں آئی ہیں اور عوام کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے حکومت کی پالیسیوں کی جو مخالفت کی جا رہی تھے اسے فی الحال روک دیا گیا ہے اور سب مل کر اس تباہی کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں تقریباً 200 مقامات پر سی اے اے کے خلاف خواتین دھرنے پر بیٹھی ہوئی تھیں لیکن اب زیادہ تر اٹھ گئی ہیں یا پولیس کی جانب سے اٹھا دی گئی ہیں۔ خود شاہین باغ کا مظاہرہ جو کہ ایسے مظاہروں کی ایک علامت بن گیا تھا، آج پولیس کی جانب سے جبراً ہٹا دیا گیا ہے۔
'خواتین نے کرونا وائرس کی وجہ سے شاہین باغ جانا چھوڑ دیا تھا'
دھرنے کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ مختلف طبقات سمیت سیاسی، سماجی، مذہبی اور فلمی شخصیات کی جانب سے وہاں بیٹھے لوگوں کی صحت کے پیش نظر شاہین باغ کے دھرنے کو ختم کرنے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ خود شاہین باغ کے مظاہرین کی تعداد گھٹ گئی تھی۔ خواتین نے کرونا وائرس کی وجہ سے وہاں جانا چھوڑ دیا تھا۔
انجم نعیم کے خیال میں اب ان دھرنوں کو ہٹایا جا رہا ہے تو حکومت کو اپنے اوپر کی جا رہی نکتہ چینی سے عارضی طور پر نجات مل گئی ہے۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت ان مظاہروں سے بہت زیادہ پریشان تھی لیکن اب اس کو اس محاذ پر راحت کا موقع نصیب ہوا ہے۔
باجماعت نماز ادا کرنے سے گریز کیا جائے: جماعت اسلامی ہند
دوسری جانب جماعت اسلامی ہند کی شرعیہ کونسل نے اعلان کیا ہے کہ مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے گریز کیا جائے۔ گھر ہی پر نماز ادا کی جائے۔ مسجد میں اذان تو ہو مگر دو تین لوگ ہی جماعت کا اہتمام کریں۔
ملک کی مختلف مساجد کی جانب سے بھی یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ لوگ مسجدوں میں کم آئیں۔ جو آئیں بھی وہ وضو گھر سے کرکے سنت ادا کرکے صرف فرض نماز کی ادائیگی کے لیے آئیں۔ جمعے کی نماز میں بھی اس طرح کا اہتمام کیا جائے۔