پاکستان کی ایک عدالت نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے تین ملزمان کو بری اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید کی سزا میں بدلنے کا حکم دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو امریکی صحافی کے مقدمۂ قتل میں ملزمان کی اپیل پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
یاد رہے کہ امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو 2002ء کے اوائل میں کراچی سے اغوا کیا گیا تھا اور اسی سال مئی میں ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔
اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔
چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی جب کہ استغاثہ کی جانب سے بھی مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
ملزمان کے وکلا نہ ہونے کی وجہ سے اپیلوں کی سماعت تقریباً 10 برس تک بغیر کارروائی کے ملتوی ہوتی رہی اور اس طرح اس کیس کا فیصلہ آنے میں 18 سال کا عرصہ لگا۔
جمعرات کو عدالت نے تین ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل کے الزام سے بری کرتے ہوئے سات سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔
تاہم ملزم احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان پہلے ہی 18 سال سے جیل میں ہیں۔
ادھر ملزمان کے وکیل بیرسٹر خواجہ نوید کا کہنا ہے کہ پولیس مجرموں کے خلاف ٹرائل میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکی جب کہ کیس میں کوئی پرائیویٹ گواہ بھی پیش نہیں کیا گیا اور تمام گواہ پولیس اہلکار تھے۔
ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چھ مارچ کو اس مقدمے میں حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ڈینئل پرل کراچی میں کیا کر رہے تھے؟
امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' سے منسلک ڈینئل پرل کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی صحافی افضل ندیم ڈوگر کا کہنا ہے کہ ڈینئل کراچی میں تشدد کی لہر اور انتہا پسندی پر مختلف اسٹوریز کر رہے تھے۔
ان کے بقول ڈینئل کئی امریکیوں کو مسلمان کر کے اُنہیں بالواسطہ طور پر القاعدہ میں شامل کرانے والی مذہبی شخصیت مبارک علی شاہ گیلانی کا انٹرویو بھی کرنا چاہتے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افضل ندیم ڈوگر نے بتایا کہ ان کی ڈینئل سے آخری ملاقات ان کے اغوا سے ایک روز قبل 22 جنوری 2002 کو ہوئی تھی۔
افضل ندیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد اسٹوریز پر ڈینئل کے ساتھ مل کر کام مکمل کر لیا تھا لیکن 22 جنوری کو ڈینئل نے انہیں بتایا کہ وہ بعض ذاتی ملاقاتوں کے لیے جانا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول ان ملاقاتوں کے بارے میں ڈینئل پرل نے اُنہیں اعتماد میں نہیں لیا تھا کہ وہ کون لوگ تھے جن سے ملاقات کرنے انہوں نے جانا تھا۔
منصوبے کے مطابق افضل ندیم کو 23 جنوری کی شام واپسی پر پرل سے کراچی کے میٹروپول ہوٹل کے باہر ملنا تھا۔ تاہم افضل ندیم کے مطابق ان سے پرل کا دوبارہ رابطہ نہ ہوسکا اور وہ اسی دن لاپتا ہو گئے اور ان کا فون بھی بند ہو گیا تھا۔
کراچی میں ہی مقیم ڈینئل پرل کی اہلیہ میرین پرل نے بھی افضل ندیم سے رابطہ کر کے شوہر سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ افضل ندیم کے بقول میرین کو خود بھی اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں کہ آخر ان کے شوہر کس سے ملاقات کرنے گئے تھے۔
اگلے دن افضل ندیم ڈوگر کو پولیس حکام اور امریکی سفارتِ خانے میں تعینات بعض افسران نے ڈینئل پرل کی رہائش گاہ پر بلایا اور ان سے بعض معلومات حاصل کیں لیکن پھر اُنہیں تفتیش یا کیس میں گواہ نہیں بنایا گیا۔
احمد عمر شیخ کون ہے؟
اس کیس میں پولیس نے کل چار افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں احمد عمر شیخ، فہد نسیم، عادل شیخ اور سلمان ثاقب شامل ہیں۔
ان میں سے احمد عمر شیخ پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں جو 'لندن اسکول آف بزنس' میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ احمد عمر شیخ کا پسِ منظر قابل ذکر ہے کیوں کہ وہ شدت پسندی کے الزام میں بھارت میں بھی جیل کاٹ چکا ہے۔
نوے کی دہائی میں بھارت میں بعض غیر ملکی سیاح اغوا ہوئے تھے اور اس الزام میں احمد عمر کو جیل بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ سزا کاٹ رہا تھا۔ 1999 میں کھٹمنڈو سے دہلی آنے والے ایئر انڈیا کے طیارے کو اغوا کیے جانے کے بعد اسے افغانستان کے شہر قندھار لایا گیا تھا۔ مغویوں کی رہائی کے بدلے اغوا کاروں کے مطالبے پر جن تین افراد کو بھارتی جیلوں سے رہا کرنا پڑا تھا ان میں احمد عمر شیخ بھی شامل تھا۔
ڈینئل پرل کیس کو کور کرنے والے صحافی مظہر عباس کے مطابق ڈینئل کے اغوا کے بعد احمد عمر شیخ کا نام سامنے آیا تھا جس کے بعد موجودہ وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ کی مداخلت اور خاندان کے دباؤ میں آکر احمد عمر نے لاہور میں خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کردیا تھا۔
تاہم پولیس نے بعد ازاں ڈینئل قتل کیس میں احمد عمر شیخ کی گرفتاری کراچی ایئر پورٹ کے قریب سے ظاہر کی تھی۔
اسی طرح فہد نسیم، سلمان ثاقب اور عادل شیخ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ڈینئل پرل کی وہ تصاویر اپ لوڈ کی تھیں جس میں وہ زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔
کیس کے نتائج:
کیس کے دوران ملزمان کو کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا۔
اس عرصے کے دوران احمد عمر شیخ کی بیرک سے ایک بار بعض غیر ملکی موبائل فون سمز بھی برآمد ہوئی تھیں جن کے بارے میں کوئی سراغ نہیں ملا تھا کہ وہ کیسے اس تک پہنچیں۔
کچھ عرصے بعد احمد عمر شیخ حیدرآباد جیل کی مسجد کے پیش امام بھی بن گئے تھے۔ اسی طرح فہد نسیم کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ گرفتاری کے وقت طالبِ علم تھے اور بی کام کر رہے تھے جب کہ عادل شیخ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پولیس میں ملازمت پیشہ تھے۔
صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ سرکاری وکلا کے لیے یہ کیس ثابت کرنا واقعی مشکل کام تھا۔ لیکن کیس کا فیصلہ آنے سے یہ سوال 18 سال بعد دوبارہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر ڈینئل کے قاتل یہ لوگ نہیں تھے تو پھر ڈینئل کا قتل کس نے کیا تھا؟
افضل ندیم ڈوگر کے مطابق کیس میں کوئی جان تھی اور نہ ہی کوئی شواہد۔ اُن کے خیال میں جس طرح اس کیس کی تفتیش کی گئی اس سے بدترین کیس کوئی اور ہو نہیں سکتا۔
ان کے بقول دلچسپ امر یہ ہے کہ جس شخص کی نشاندہی پر ڈینئل پرل کی لاش برآمد کی گئی تھی اسے کیس میں شاملِ تفتیش ہی نہیں کیا گیا۔
افضل ندیم کے مطابق کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے قریب واقع جس فارم ہاؤس میں مبینہ طور پر ڈینئل پرل کو قتل کیا گیا تھا، اس کے مالک سعود میمن کافی عرصہ جیل میں رہے اور پھر بیماری کے باعث انتقال کر گئے۔