رسائی کے لنکس

کرونا کے سائے میں 'ارتھ ڈے' کی سرگرمیاں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اس سال یوم الارض کا موضوع ہے 'موسمیاتی تبدیلی کے لیے عملی اقدامات'، جب کہ ماحول کے حوالے سے ہمارے سامنے بہت بڑے چیلنج بھی ہیں تو ساتھ ہی عمل کے وسیع مواقع بھی۔

کرونا وائرس کی وجہ یوم الارض کے موقع پر بڑے اجتماعات اور ریلیاں منعقد نہیں ہو رہی ہیں۔ تاہم، اس دن کے حوالے سے بیشتر سرگرمیاں ڈیجیٹل ہیں۔ اس تحریک کے سرگرم کارکن اس دن کو آن لائین منا رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ اور خاتون اول نے وائٹ ہاؤس میں پودا لگا کر اس دن کی یاد تازہ کی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں موسمیاتی تبدیلی کا تو ذکر نہیں کیا مگر یہ کہا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانے کے لیے امریکہ دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی سرگرم اور معروف رہنما گریٹا تھان برگ نے پچاسویں سالگرہ کے موقع پر کہا کہ کرونا وائرس کی عالم گیر وبا کے باوجود ہم اپنے ماحولیاتی بحران کو فراموش نہیں کریں گے۔ اسٹاک ہوم سے ایک ویڈیو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔

گریٹا تھان برگ نے کہا کہ عالم گیر وبا کرونا اور ماحولیاتی بحران دونوں اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہمیں سائنس دانوں اور ماہرین کی باتوں پر توجہ دینی ہوگی اور اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہو کر عمل کرنا ہو گا۔

امریکی عوام کو سن 1970ء میں اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہوا تھا۔ اس سے پیشتر 1960ء کے عشرے میں اس خطرے کے بارے میں لکھا اور بولا جانے لگا تھا۔ پھر جنوری 1969ء میں کیلی فورنیا کے سانٹا باربرا کے ساحل پر تیل بہنے کے واقعے نے پوری دنیا کو جگا دیا۔ اس کی وجہ سے لاکھوں پرندے اور سمندری مخلوق ہلاک ہوئی تھی۔

اس نوعیت کے پے درپے واقعات نے موسمیاتی تبدیلی کے سرگرم کارکنوں کو اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کا موقع ملا اور پھر سینیٹر گےلارڈ نیلسن کی قیادت میں بائیس اپریل 1970ء کو امریکی قوم کرہ ارض کو بچانے کے لیے باہر نکلی، تقریباً دو کروڑ امریکیوں نے یوم الارض منایا۔

اس وقت کے صدر نکسن نے وائٹ ہاوس میں پودا لگا کر دن آغاز کیا۔ اس کے بعد نکسن نے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی قائم کی۔ اسی سال صدر نکسن نے صاف پانی اور صاف ہوا کے ایکٹ پر دستخط کیے۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔ اور اسی حوالے سے یوم الارض کی خاص اہمیت ہے۔

اقوام متحدہ کے موسمیات کے ادارے نے انتباہ کیا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو اگلے دس برسوں میں مجموعی درجہ حرارت میں ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوگا۔ اس سے موسموں پر ایسے خطرناک اثرات رونما ہوں گے جن کا مداوا ممکن نہیں ہوگا۔

عالمی موسمیات کے ادارے کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے فی الحال صنعتی سرگرمیاں موقوف ہیں اور کم تعداد میں گاڑیاں چل رہی ہیں۔ اس سے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں چھ فی صد کمی آئی ہے۔ مگر یہ اچھی خبر عارضی ثابت ہوگی اور جونہی صنعتی سرگرمیاں شروع ہوں گی حالات ماضی کی طرف لوٹ جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG