رسائی کے لنکس

نوبیل انعام کے ساتھ پلٹزر اور آسکر بھی جیتنے والے ادیب


دنیا کا سب سے معتبر سمجھا جانے والا نوبیل انعام اب تک 385 امریکیوں کو مل چکا ہے۔ ان میں صرف گیارہ ایسے ہیں جنھیں یہ انعام ادب کے شعبے میں عظیم خدمات پر دیا گیا ہے۔

اگر پولینڈ اور امریکہ کی شہریت رکھنے والے چیسوف میووش کو بھی گن لیا جائے تو یہ تعداد بارہ ہوجاتی ہے۔ امریکہ میں جنم لینے والے ٹی ایس ایلیٹ نے انگلینڈ جا کر امریکی شہریت چھوڑ دی تھی اس لیے انھیں اس فہرست میں شمار نہیں کیا جاتا۔

بارہ امریکی ادیبوں میں نو ایسے باکمال تھے جنھوں نے امریکہ کے اعلیٰ ادبی اعزازات میں سے ایک، پلٹزر پرائز بھی حاصل کیا۔ اور پوری دنیا میں بس ایک ہی منفرد فنکار ہے جس نے نوبیل اور پلٹزر کے علاوہ آسکر ایوارڈ بھی جیتا۔

سنکلئیر لوئس پہلے امریکی تھے جنھیں 1930 میں ادب کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ اس سے پہلے ان کے ناول مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ چکے تھے۔ چار سال پہلے 1926 میں ان کے ایک ناول ایروسمتھ پر پلٹزر پرائز کا اعلان کیا گیا۔ لیکن انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ منتظمین سے خفا تھے۔ ان کے اس ناول پر 1931 میں بنائی گئی فلم آسکر کے لیے نامزد کی گئی تھی۔

ڈرامہ نگار یوجین اونیل دوسرے امریکی تھے جنھیں 1936 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ اس وقت تک ان کے تین ڈراموں پر پلٹزر پرائز دیا جاچکا تھا۔ 1920 میں بیونڈ دی ہورائزون، 1922 میں اینا کرسٹی اور 1928 میں اسٹرینج انٹرلیوڈ کے بعد 1957 میں لونگ ڈیز جرنی انٹرو نائڑ پر انھیں چوتھا پلٹزر انعام دیا گیا۔

اینا کرسٹی پر 1930، اسٹرینج انٹرلیوڈ پر 1932 اور لونگ ڈیز جرنی انٹو نائٹ پر 1962 میں فلم بنائی گئی۔

پرل ایس بک پہلی امریکہ ادیبہ تھیں جنھوں نے 1938 میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کیا۔ اس سے چھ سال پہلے 1932 میں انھیں ناول دا گڈ ارتھ پر پلٹزر پرائز ملا تھا۔ اس ناول پر 1937 میں فلم بھی بنی جسے آسکر کے لیے نامزد کیا گیا۔

ولیم فاکنر بھی ان ادیبوں میں شامل ہیں جنھیں نوبیل انعام پہلے ملا اور پلٹزر پرائز بعد میں۔ نوبیل انعام سے انھیں 1949 میں نوازا گیا تھا۔ پہلا پلٹزر پرائز انھیں 1955 میں ناول اے فیبل پر دیا گیا۔ 1963 میں ان کے ناول دا ریورز پر دوسرے انعام کا اعلان کیا گیا۔ لیکن اس وقت تک ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ دا ریورز پر 1969 میں فلم بنائی گئی تھی۔

امریکہ کے مقبول ترین ادیبوں میں سے ایک ارنسٹ ہیمنگوے بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ انھیں 1953 میں ناول دا اولڈ مین اینڈ دا سی پر پلٹزر پرائز دیا گیا اور اگلے سال نوبیل انعام مل گیا۔ 1941 میں بھی انھیں نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا۔

جان اسٹین بیک کو 1962 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ اس سے 22 سال پہلے 1940 میں انھیں ناول دا گریپس آف ریتھ پر پلٹزر پرائز مل چکا تھا۔ ان کے اس ناول پر بنائی گئی فلم کو ہالی ووڈ کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے اور اسے آسکر کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔

سول بیلو واحد ادیب ہیں جنھیں پلٹزر پرائز اور نوبیل انعام سے ایک ہی سال میں نوازا گیا۔ 1976 میں انھیں ہمبولٹس گفٹ پر پلٹزر ملا تھا۔ ان کے بعد تین ایسے امریکی ادیبوں کو نوبیل انعام ملا جنھوں نے کبھی پلٹزر پرائز حاصل نہیں کیا۔

1978 میں آئزک بیشاوس سنگر، 1980 میں چیسوف میووش اور 1987 میں جوزف بروڈسکی کے نوبیل انعام امریکہ کے کھاتے میں لکھے جاتے ہیں۔ سنگر ژیدش، میووش پولش اور بروڈسکی روسی زبان میں لکھتے تھے۔

ٹونی موریسن امریکہ کی دوسری خاتون اور دنیا کی پہلی سیاہ فام ادیبہ تھیں جنھیں 1993 میں نوبیل انعام ملا۔ اس سے پانچ سال پہلے 1988 میں ان کے ناول بیلوڈ پر پلٹزر پرائز دیا جاچکا تھا۔ ہالی ووڈ میں اس ناول پر 1998 میں فلم بنائی گئی۔

امریکی شاعر باب ڈائلن وہ منفرد فنکار ہیں جو ادب کا نوبیل انعام، پلٹزر پرائز اور آسکر ایوارڈ تینوں حاصل کرچکے ہیں۔ 2000 میں انھوں نے فلم ونڈر بوائز کے گیت تھنگز ہیو چینجڈ کے لیے آسکر حاصل کیا تھا۔ 2008 میں انھیں ادب اور فن کے لیے خدمات پر پلٹزر پرائز دیا گیا۔ 2016 میں انھیں ادب کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

دنیا میں صرف دو ہی فنکار ہیں جنھیں ادب کا نوبیل انعام اور آسکر ایوارڈ ملا ہے۔ باب ڈائلن کے علاوہ دوسری شخصیت آئرلینڈ کے ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا ہیں۔ انھیں 1925 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ ان کے ڈرامے پگمیلیئن پر 1938 میں فلم بنی تو ان کے حصے میں بہترین اسکرین پلے کا آسکر آیا۔ پگمیلیئن انعام نہ جیت سکی، لیکن جب اس کی کہانی پر 1964 میں مائی فیئر لیڈی کے نام سے میوزیکل بنائی گئی تو آسکر جیتنے میں کامیاب رہی۔

XS
SM
MD
LG