اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے برطانیہ میں قتل ہونے والے متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمۂ قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے تین مجرموں کو عمر قید کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس قتل کا منصوبہ پاکستان اور برطانیہ میں بنا جس کے اصل کردار متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین، محمد انور اور افتخار حسین تھے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے جمعرات کو 21 مئی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
فیصلے کے مطابق عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی مجرم قرار پائے ہیں جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔
عدالت نے ملزمان کو عمران فاروق کے اہل خانہ کو دس، دس لاکھ روپے ہرجانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش پاکستان اور برطانیہ میں تیار ہوئی اور الطاف حسین، محمد انور اور افتخار حسین اس سازش کے اصل کردار تھے۔
عدالت نے الطاف حسین اور ان کے قریبی عزیز افتخار حسین سمیت اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے ہیں۔
انتالیس صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے میں عمران فاروق قتل کیس کی وجوہات بھی بتائی گئی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش پاکستان اور برطانیہ میں تیار ہوئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین، محمد انور اور افتخار حسین اس سازش کے اصل کردار تھے۔
عدالت نے الطاف حسین کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کرنے اور اُن کی جائیداد ضبط کرنے کے بھی احکامات دیے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اُمید کرتی ہے کہ پاکستانی اور برطانوی حکام مفرور ملزمان کو ڈھونڈ کر جلد عدالت میں پیش کریں گی۔
پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر کرسٹین ٹرنر نے عدالتی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ مجرموں کو سزا ملنا پاکستان اور برطانیہ کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں برطانوی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں پاکستان اور برطانیہ کے تحقیقاتی اداروں نے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔
کرسٹین ٹرنر نے کہا کہ "برطانوی ہائی کمیشن کے زیرِ انتظام اس قانونی تعاون کے باعث برطانوی پولیس کے ذریعے جمع کردہ شواہد پاکستان میں استغاثے کو فراہم کیے گئے جو محسن علی سید کے خلاف کامیاب قانونی چارہ جوئی میں استعمال ہوئے۔"
'قتل کا حکم الطاف حسین نے دیا'
عدالتی فیصلے کے مطابق عمران فاروق کے قتل کا حکم الطاف حسین نے دیا۔ ایم کیو ایم لندن کے دو سینئر رہنماؤں محمد انور اور افتخار حسین نے الطاف حسین کا پیغام پاکستان پہنچایا۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے معظم علی نے قتل کے لیے لڑکوں کا انتخاب کیا۔ عمران فاروق کو قتل کرنے کے لیے محسن علی اور کاشف کامران کو چنا گیا۔ دونوں کو برطانیہ لے جا کر قتل کرانے کے لیے بھرپور مدد کی گئی۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ قتل منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا تاکہ آئندہ کوئی بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف آواز نہ اُٹھا سکے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مجرموں نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں بدنام کیا، لہذٰا وہ مثالی سزا کے مستحق ہیں۔
کیس کے گواہان
اس کیس میں برطانیہ نے بھی شواہد فراہم کیے اور وڈیو لنک پر مقتول کی اہلیہ سمیت برطانوی گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ کیس کے برطانوی چیف تفتیشی اہلکار نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ برطانیہ نے پاکستانی حکومت کو جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی پر شواہد فراہم کیے اور کیس میں تعاون کیا تھا۔
برطانوی تفتیش کار کے علاوہ 15 برطانوی گواہان نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔
ان گواہان کے علاوہ برطانیہ میں عمران فاروق کی پڑوسی خاتون کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جس نے قتل ہوتے ہوئے دیکھا اور پولیس کو ملزم محسن علی کا خاکہ بنانے میں مدد دی تھی۔
اس کے علاوہ معظم علی کے کہنے پر محسن علی کو برطانیہ میں قتل کے بعد ایئرپورٹ پہنچانے والے شخص کا بیان بھی موجود ہے۔ پاکستان سے برطانیہ رقوم بھجوانے کے لیے استعمال ہونے والے بینکوں کا ریکارڈ اور بینک افسران کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
عمران فاروق قتل کیس میں کب کیا ہوا؟
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایجور کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔
برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں قتل کی تفتیش کے دوران ایم کیو ایم کے بانی کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے۔ چھاپے کے دوران وہاں سے پانچ لاکھ سے زائد برطانوی پاؤنڈز کی رقم ملنے پر ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔
بعدازاں برطانوی پولیس نے تحقیقات کے حوالے سے ویب سائٹ پر کچھ تفصیلات جاری کی تھیں جس کے مطابق مشتبہ ملزم 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جب کہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔
دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔
جون 2015 میں پاکستانی حکام دو ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جب کہ ایک اور ملزم معظم علی کو کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے۔ ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔
یکم دسمبر 2015 کو اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پانچ دسمبر 2015 کو حکومتِ پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کو مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جب کہ مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔
چھ دسمبر 2015 کو تین مبینہ ملزمان معظم علی، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
آٹھ جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو محسن علی اور خالد شمیم نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔ لیکن قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے صحتِ جرم سے انکار کردیا تھا۔
نو جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی تھی جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے تھے۔
گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیوں کہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔
دیگر ملزمان کے مطابق ملزم کاشف نے بتایا تھا کہ پارٹی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو۔ انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی۔ جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔
خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے جب کہ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ ملزم اب تک گرفتار نہیں ہو سکا۔
اکیس اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا تھا۔
29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔
جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔
چار مئی 2016 کو وفاقی دارالحکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا گیا۔ عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا۔
اسی سال 28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی۔ ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کے انٹرویو کیے تھے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا تھا۔
دس نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔