رسائی کے لنکس

کرونا کی عالمی وبا: سازشی نظریات اور سوشل میڈیا کے کردار پر تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کرونا وائرس کی عالمی وبا نے جب سے تباہی مچانی شروع کی ہے، اس کے بعد سے بہت سے سازشی نظریات نے بھی جنم لیا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا کے کردار پر بھی بحث ہوتی رہی ہے اور یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ خبروں کے معاملے میں سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر انحصار نے کووڈ نانٹین کے بارے میں بعض سازشی نظریات کو بہت ہوا دی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جب لوگ خبروں کے لیے بیشتر فیس بک اور یوٹیوب جیسے ذرائع پر انحصار کرنے لگ جاتے ہیں تو اس بات کا غالب امکان ہوتا ہے کہ وہ کرونا وائرس کی عالمگیر وبا سے متعلق سازشی نظریات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ نئی تحقیق کے مطابق اس بات کا بھی سخت اندیشہ ہوتا ہے کہ لوگ لاک ڈاون کے فوائد و ضوابط سے انحراف کرنے لگے ہیں۔

لندن سے وائس آف امریکہ کے نامہ نگار انڈری ریجویل اپنے رپورٹ میں یاد دلایا ہے کہ برطانیہ کے مختلف علاقوں میں حالیہ ہفتوں میں یہ دیکھنے میں آیا کہ فائیو جی کے موبائل ٹیلی کام ٹاور نذر آتش کردئے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بہت سی ایسی کارروائیوں کے پیچھے یہ غلط تصور ہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کا تعلق کرونا وائرس کی عالمی وبا سے ہے۔

کنگز کالج لندن کی تحقیق کے مطابق، سازشی نظریات اور خبروں کے لئے سوشل میڈیا پر انحصار کا آپس میں گہرا تعلق ہے، جن میں فیس بک اور یوٹیوب کے علاوہ ٹوئٹر اور واٹس اپ شامل ہیں، جبکہ اس سلسلے میں نشریاتی اداروں یا پرنٹ میڈیا سے کم رجوع کیا جارہا ہے۔

ماہرین نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور ان کے مطابق یہ سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ ان میں سے چھپن فیصد افراد نے بتایا کہ خبروں کے حصول کے لئے فیس بک ان کا اہم ذریعہ ہے۔

اسی حوالے سے ایک برطانوی قانون ساز دامیان کالنس اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ اس قسم کی سوچ سے صحت کے معاملات پیچیدگی کا شکار ہوجائیں گے اور ان پہلووں پر توجہ ضروری ہے۔ انھوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے آنے والے دنوں میں ویکسین کے پروگرام پر سوشل میڈیا خاصا اثر انداز ہوسکتا ہے۔

قدامت پسند برطانوی رکن پارلیمنٹ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ویکسین کی دریافت کی صورت میں ضرورت اس بات کی ہوگی کہ لوگوں میں اس پر اعتماد پیدا کیا جائے اور وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ٹیکے لگوائیں۔ لیکن اگر اس کے بارے میں سازشی نظریات پھیلا دئے گئے تو پھر عوامی صحت کے نقطہ نظر سے یہ سنگین بات ہوگی۔

اپنے طور پر فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں ایسی ویڈیوز اور پوسٹنگ ہٹادی ہے جس کا تعلق کووڈ نانٹین کے بارے میں غلط معلومات سے تھا اور جن سے نقصان کا بہت زیادہ خطرہ تھا۔ تاہم، سوشل میڈیا کے ان بڑے اداروں کو اب متعدد محاذوں پر چیلنجوں کا سامنا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، ایک سو پچاس سے زیادہ کمپنیوں نے جن میں اسٹاربکز اور کوکا کولا جیسے کاروباری ادارے شامل ہیں فیس بک پر اشتہارات روک دئے ہیں۔ انھوں نے غلط معلومات کی مبینہ تشہر اور نفرت پر مبنی مواد پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کمپنیوں کا اپنے دفاع میں کہنا ہے کہ غلط معلومات کی تشہیر سے نمٹنے کے لئے انھوں نے ایک مضبوط نظام قائم کررکھا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ ایسےشواہد کے پش نظر کہ سماجی رابطوں کے پلیٹ فام سے کرونا وائرس کے بارے میں جھوٹی معلومات کی ترویج ہورہی ہے، سوشل میڈیا پر دباو میں یقیناً اضافہ ہوگا کہ وہ اپنے اداروں کو قوائد و ضوابط کا پابند کریں۔

XS
SM
MD
LG