|
اسلام آباد -- منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خصوصی مشنز کے لیے رچرڈ گرینل کا انتخاب پاکستان کی سیاست اور میڈیا میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
امریکی سفارت کار رچرڈ گرینل سوشل میڈیا پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم ٹرمپ کی جانب سے اُنہیں اپنی انتظامیہ کا حصہ بنانے کے اعلان کے بعد پاکستان میں اُن کے نام کی گونج ہے۔
گزشتہ ماہ 26 نومبر کو پاکستان کا سیاسی ماحول اس وقت کشیدہ ہو گیا تھا جب عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد مارچ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے کریک ڈاؤن کیا تھا۔
اس موقع پر بھی رچرڈ گرینل نے 'ایکس' پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم اُن کی اس پوسٹ کو اس وقت زیادہ توجہ نہیں ملی تھی۔ تاہم 15 دسمبر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اُن کا بطور ایلچی انتخاب کیا تو پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹ اور کارکنوں کی جانب سے اس پوسٹ کو بڑھاوا دیا گیا۔
پاکستانی چینل 'جیو نیوز' نے، جس پر اس کے ناقدین حکومت نواز ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں، رچرڈ گرینل کے انتخاب کی خبر اس ہیڈ لائن کے ساتھ نشر کی کہ "ٹرمپ نے ہم جنس پرست رچرڈ گرینل کو اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔"
اس کے ردِعمل میں رچرڈ گرینل نے 'ایکس' پر لکھا کہ "میں دوبارہ کہوں گا کہ عمران خان کو آزاد کرو۔" گرینل نے اپنی اگلی پوسٹ میں یہ بھی کہا کہ اُن کی پچھلی پوسٹ کو ایک کروڑ ویوز ملے ہیں۔
رچرڈ گرینل کئی اہم عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ وہ جرمنی میں امریکہ کے سفیر رہنے کے علاوہ سربیا اور کوسوو میں صدارتی ایلچی کے طور پر امن مذاکرات میں بھی شامل رہے ہیں۔ وہ پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے دوران 2017 سے 2021 تک قائم قام ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جینس بھی رہ چکے ہیں۔
عمران خان کے حق میں اُن کے 'ایکس' پر بیانات کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں ٹی وی ٹاک شوز میں مبصرین گرینل کے بیانات پر بات کر رہے ہیں۔ کچھ مبصرین ان پوسٹس کو محض پبلسٹی قرار دیتے ہوئے مسترد کر رہے ہیں۔ تو بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان بیانات کا نئی امریکی انتظامیہ اور پاکستان کے رابطوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔
کچھ ناقدین تو رچرڈ گرینل کا 'ایکس' اکاؤنٹ مستند ہونے پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں جس پر رچرڈ گرینل نے 'ایکس' پر لکھا کہ "وہ کیسے یہ ثابت کریں کہ یہ میرا ہی اکاؤنٹ ہے۔"
رچرڈ گرینل کا عمران خان کے حق میں تازہ بیان ہفتے کو اس وقت سامنے آیا جب امریکی رُکن کانگریس ایلیسا سلوٹکن نے اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے احتجاج اور مبینہ تشدد کا ذکر کیا۔
سلوٹکن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ "پاکستانی حکام کو شہریوں کے آزادیٔ اظہار اور پرامن اجتماع کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے، خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کرتے ہوئے پاکستان کی جمہوریت کو برقرار رکھنا چاہیے۔"
عمران خان اگست 2023 سے کرپشن اور غداری سمیت مختلف الزامات میں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
عمران خان یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اُنہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد اُنہیں دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا ہے کیوں کہ وہ سول معاملات میں فوجی مداخلت کے ناقد ہیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ عمران خان کو الزامات عائد کرنے کے بجائے عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہیے۔
عمران خان اور بعض آزاد ماہرین کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اگر رواں برس فروری میں ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی نہ ہوتی تو پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی۔
انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے اُمیدواروں اور اہم رہنماؤں کو مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی رہنما اور کارکن اس دوران روپوش ہو گئے تھے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں ایسے حالات میں پارٹی کی انتخابی مہم متاثر ہوئی۔
عمران خان کی حکومت نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں 2021 میں افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ہوا تھا۔
ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان کی جانب سے 'ایکس' پر جاری بیان میں اپنی اور پارٹی کی جانب سے اُنہیں مبارکباد دی گئی تھی۔
عمران خان نے اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ "منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام پر مبنی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے لیے اچھے ثابت ہوں گے۔ وہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوریت پر زور دیں گے۔"
شہباز شریف حکومت اور عمران خان کے ناقدین ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی معاملات میں امریکہ کی مداخلت چاہتے ہیں حالاں کہ وہ ماضی میں اس کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔
فورم