صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا حتمی فیصلہ آئندہ ہفتے تک ہو جائے گا۔ انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ اگلے ہفتے امن عمل سے متعلق گفت و شنید کا آغاز ہو جائے گا، جس میں 18 علاقائی اور بین الاقوامی ملک شرکت کریں گے۔
انھوں نے یہ بات گزشتہ رات افغانستان کے قومی ٹیلی ویژن چینل، آر ٹی اے کی جانب سے منعقدہ محفل مباحثہ میں کہی۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر غنی نے کہا کہ ''طالبان قیدیوں کی رہائی کا حتمی فیصلہ آئندہ دنوں کے دوران ہو جائے گا، جس میں یہ واضح کیا جائے گا کہ 5000 طالبان قیدی کس طرح رہا ہوں گے''۔
صدر غنی نے کہا کہ انھوں نے تمام متعلقہ تنظیموں کو کہا ہے کہ وہ طالبان قیدیوں کی فہرست کو آخری شکل دیں، جن پر افغان حکومت اور طالبان رضامند ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی دراصل قیدیوں کا تبادلہ ہے، اور افغان حکومت کو پتا ہونا چاہیے کہ افغان سیکیورٹی فورسز کے قیدیوں کو کب اور کہاں رہائی ملے گی، اور یہ یک طرفہ عمل نہیں ہو گا۔
افغان صدر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پہلا بین الافغان مکالمہ دوحہ میں ہو گا۔ لیکن، انھوں نے مزید کہا کہ کئی ممالک جن میں ازبکستان، انڈونیشیا، چین، جرمنی، ناروے اور جاپان شامل ہیں، بین الافغان بات چیت کا اجلاس منعقد کرنے پر تیار ہیں۔
ادھر، بدھ کو جاری ہونے والی پینٹاگون کی حالیہ رپورٹ کےحوالے سے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس نے بتایا ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، طالبان نے القاعدہ کے ساتھ روابط جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر، امریکی نمائندہ خصوصی خطے کا حالیہ دورہ مکمل کر چکے ہیں جب کہ بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے لیے شہری آبادی کے تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق اقوام متحدہ کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''حالانکہ امن عمل کے سلسلے میں حالیہ پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، لیکن برصغیر ہند کی القاعدہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ قریبی روابط برقرار رکھے ہوئے ہے، جس کا مقصد تربیت کی فراہمی ہے''۔
دوسری طرف طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پینٹاگون کی رپورٹ کو بے بنیاد اور پروپیگنڈا قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان اپنی پالیسی کے تحت دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اس لیے طالبان افغانستان کی سرحدوں سے باہر کام کرنے والے کسی بھی گروہ کی حمایت نہیں کرتے چاہے یہ بھارت ہو یا کوئی اور ملک۔
ذبیح اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان گزشتہ 19 سالوں سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قبضے میں ہے اور طالبان اپنی قیادت کے تحت ملک میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ اس صورتِ حال میں ان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ افغانستان کی سرحدوں کے باہر کسی (گروپ) کی حمایت کریں۔
ذبیح اللہ نے مزید کہا کہ طالبان نے 29 فروری 2020 کو دوحہ میں امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ طالبان اس معاہدے پر عمل درآمد کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں تاکہ افغانستان میں مکمل طور پر امن قائم ہو سکے۔
طالبان ترجمان کے بقول امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے ایسی رپورٹ کی اشاعت یا تو غیر ذمہ دارنہ (اقدام) ہے یا یہ عوام کے ذہنوں کو الجھانے کے لیے بطور پروپیگنڈا استعمال کیا جا رہا ہے۔
طالبان ترجمان نے امریکی عہدیداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کریں اور غلط معلومات پر مبنی پروپیگنڈا بند کریں۔