ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نےتشویش ظاہر کی ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ ذاتی حفاظتی سامان کو صرف ایک بار استعمال کرکے کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔
برطانیہ میں ماہرین غور کر رہے ہیں کہ پلاسٹک کے اس بڑھتے ہوئے انبار کو کیسے کم کیا جائے۔ حکومتیں اپنے عوام اور ہیلتھ ورکرز کو محفوظ رکھنے کے لیے دستانے، ماسک اور دیگر حفاظتی سامان کے استعمال کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، مگر پلاسٹک کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کیا بندوبست کیا جائے؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے 'اے پلاسٹک پلینیٹ' کی بانی سیان سدرلینڈ کہتی ہیں کہ بیشتر حفاظتی سامان پلاسٹک کا ہوتا ہے جو صرف ایک بار استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔ صرف برطانیہ میں کرونا وائرس کا شکار افراد کو طبی علاج معالجہ فراہم کرنے والے عملے میں فروری کے آخر سے اپریل کے وسط تک پچہتر کروڑ حفاظتی اشیاٗ تقسیم کی گئیں۔
سدرلینڈ کے خیال میں یہ ہمیشہ باقی رہنے والا کچرا ہے، حفاظتی سامان کی تیاری کے لئے کوئی ماحول دوست میٹیریل استعمال کرنا ہوگا۔
پیکیجنگ کی ایک کمپنی ریل برانڈز نے اب ہر ہفتے دس لاکھ سے زیادہ ماحول دوست سکرین یونٹس بنانے شروع کیے ہیں۔
اس کمپنی سے منسلک ایان بیٹس کا کہنا ہے کہ ہم پلاسٹک کے بغیر یہ سامان تیار کر رہے ہیں۔ یہ تحلیل ہونے والے پائیدار میٹریل سے بنایا جا رہا ہے۔ اس میں لکڑی کا گودا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم کارڈبورڈ بھی استعمال کرتے ہیں اور ڈیزائن سادہ اور آسانی سے استعمال ہونے کے قابل ہے۔
اس کمپنی کا اگلا منصوبہ گائون اور دستانے بنانے کا ہے۔ ریل برانڈز کے علاوہ بھی کئی کمپنیاں ماحول دوست حفاظتی سامان بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ایک برطانوی کمپنی اوشن ویو تین تہوں والا ایسا ماسک بنا رہی ہے جسے بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کمپنی کی چیف آپریٹنگ آفیسر نکول میکڈرمٹ کے خیال میں یہ سراسر پاگل پن ہے کہ آپ ایک ماسک کو صرف ایک بار پہن کر کوڑے میں پھینک دیں۔ یہ ناممکن ہے کہ الماری میں رکھی ساری چیزیں ایک بار استعمال کے بعد ناکارہ کر دی جائیں۔ ایسا طرز عمل زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
اقوام متحدہ کی سال دو ہزار اٹھارہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہر سال ایک کروڑ تیس لاکھ ٹن پلاسٹک سمندر میں بہایا جاتا ہے اور اب جبکہ اس مقدار میں پلاسٹک سے تیار ہونے والا ذاتی حفاظتی سامان بھی شامل ہونے لگا ہے، ماحولیاتی آلودگی میں کئی گنا اضافہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔