طویل انتظار کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان امن مذاکرات ہفتے سے شروع ہو رہے ہیں۔ دونوں نے دوحہ میں ہونے والے ان مذاکرات کی تصدیق بھی کی ہے۔
قطر کی وزارتِ خارجہ اور طالبان نے جمعرات کو اپنے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ بین الافغان امن مذاکرات کے لیے طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان پہلی مرتبہ براہِ راست بات چیت ہو گی۔
طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے جمعرات کو اپنی ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان افغان امن معاہدے کے تحت اگلے مرحلے کے لیے بین الافغان امن مذاکرات پر طالبان تیار ہیں۔
ترجمان کے مطابق مذاکرات کا پہلا دور ہفتے سے شروع ہو گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان مذاکرات کا عمل احسن طریقے سے انجام دینے کے خواہش مند ہیں تاکہ افغانستان میں دیرپا امن اور خالص اسلامی روایات کے مطابق اسلامی نظام لایا جائے۔
طالبان کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ان کے باقی ماندہ چھ قیدی رہائی کے بعد خصوصی طیارے کے ذریعے دوحہ پہنچ گئے ہیں۔
طالبان کی 21 رکنی مذاکراتی ٹیم کی قیادت مولوی عبدالحکیم کر رہے ہیں۔ اُنہیں طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کا قابلِ اعتماد ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ وہ طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں قائم خود ساختہ عدالتی نظام کے سربراہ بھی ہیں۔
طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں رہبری شوریٰ کے 13 ارکان بھی شامل ہیں۔
افغانستان میں قومی مفاہمت کی اعلٰی کونسل کے سربراہ اپنی ٹیم کے ہمراہ جمعے کو قطر پہنچ رہے ہیں۔ افغان حکومت کے وفد کی سربراہی محمد معصوم استنکزئی کریں گے۔ افغان وفد میں خواتین بھی شامل ہیں جب کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں کوئی خاتون موجود نہیں۔
طالبان کی جانب سے بین الافغان مذاکرات کے اعلان کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو مذاکراتی عمل میں شرکت کے لیے قطر کا دورہ کریں گے۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صدیقی نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں تصدیق کی ہے کہ افغان وفد مذاکرات کے لیے دوحہ کا دورہ کرے گا اور صدر غنی مذاکراتی ٹیم کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
ادھر امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک بیان میں بین الافغان مذاکرات کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام ایک عرصے سے جنگوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ افغانستان سے طویل جنگ اور خون خرابے کے خاتمے کے لیے یہ ایک تاریخی موقع ہے۔
خیال رہے کہ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونا ہیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی پر زور دے رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے بھی بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے "ہمیں امید ہے کہ یہ مذاکرات افغانستان میں پائیدار امن کا باعث بنیں گے جس سے ملک میں خوش حالی آئے گی۔ اس عمل میں ہماری بھرپور حمایت جاری رہے گی۔"
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری کے آخر میں دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں طالبان اور افغان قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغان امن مذاکرات ہونا ہیں۔
اس معاہدے کا مقصد افغانستان میں طویل جنگ کا خاتمہ ہے۔ معاہدے میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا بھی شامل ہے۔ امریکہ پہلے ہی افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد 13 ہزار سے گھٹا کر 8600 کر چکا ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل میکنزی نے بدھ کو کہا تھا کہ نومبر تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد مزید گھٹا کر پانچ ہزار سے بھی کم کر دی جائے گی۔
افغانستان میں جنگ بندی کے خاتمے اور شراکتِ اقتدار کے معاملات پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو مشکل تصور کیا جا رہا ہے۔ طالبان مستقبل میں افغانستان میں شرعی نظام لانے کے حامی ہیں، جب کہ افغان حکومت ملک میں فوری جنگ بندی کی بات کرتی ہے۔
دونوں جانب سے جنگ بندی کے خاتمے اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر بحث ہو گی۔
طالبان پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ خواتین کو اسکول جانے کی اجازت دی جائے گی اور وہ کام کے علاوہ سیاست میں بھی حصہ لے سکیں گی۔
طالبان یہ زور بھی دیتے ہیں کہ مذکورہ تمام معاملات میں اجازت اسلامی اصولوں کے تحت حاصل ہو گی۔
بین الافغان مذاکرات کتنے مشکل ہوں گے؟
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مذاکرات بہت مشکل ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ وہ پُر امید ہیں کہ مذاکرات آگے بڑھیں گے۔
ان کے بقول شاید مستقبل میں کچھ وقت کے لیے بات چیت معطل بھی ہو جائے لیکن ختم نہیں ہو گی۔ کیوں کہ طالبان، افغان حکومت، امریکہ اور دیگر ممالک کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ بات چیت کا یہ سلسلہ ختم ہو۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ سب پر عیاں ہو چکا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل سیاسی ہے نہ کہ فوجی۔
طالبان کا آخری موقع پر شیر محمد عباس استنکزئی سے بین الافغان مذاکراتی وفد کی سربراہی واپس لینا اور شیخ عبدالحکیم کو لیڈر مقرر کرنا، رحیم اللہ یوسفزئی کے بقول یہ عمل تشویش کا باعث نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوںکہ شیخ عبدالحکیم بہت سینئر رکن ہیں۔ وہ طالبان کے "چیف جسٹس" ہیں۔ ایک بڑے عالم دین ہیں، اس لیے انہیں شیخ کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا رتبہ زیادہ اہم ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق اب بھی تمام مذاکرات شیر محمد عباس استنکزئی ہی کریں گے۔ کیوں کہ ان کا تجربہ زیادہ ہے۔ وہ افغان فوج کا حصہ رہے ہیں اور بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے اصل رول ان ہی کا ہو گا۔
رحیم اللہ یوسفزئی کے بقول افغانستان کے بہت مسائل بہت پیچیدہ ہیں، جس میں افغان حکومت مستقل جنگ بندی اور طالبان شرعی نظام کے نفاذ پر زور دیں گے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر فریقین میں اختلافِ رائے ہے۔
ادھر افغانستان کی قومی سلامتی کونسل میں ڈائریکٹر برائے امن اور شہریوں کے تحفظ کے عہدے پر فائز سید انتظار خادم کہتے ہیں کہ جنگ کو صلح میں تبدیل کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ صلح ناممکن ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے عوام لڑائی سے بہت تنگ آ چکے ہیں اور اب وہ اس سرزمین پر صرف امن چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ افغان حکومت کے نمائندے مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر روانہ ہو چکے ہیں اور انہوں نے طالبان کے تمام قیدی رہا کر دیے ہیں۔ سید انتظار خادم کو توقع ہے کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔